• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 32556

    عنوان: ہم کیسے معلوم کریں کہ کون غریب ہے اور کیا ہم اس کو زکاة کا پیسہ دیں

    سوال: ماہ رمضان میں ہم بہی خوہان سے زکاة وصول کرتے ہیں اور اپنے گاؤں کے محتاجوں کو مہینہ کے حساب سے پورے سال کے لیے دیدتے ہیں۔ خاندان کے ایک فرد پر 400/ روپئے دینے فیصلہ کرتے ہیں۔ مثلا ایک گھر میں چار افراد ہیں تو اس کو 1600/ روپئے ملیں گے۔ اس سلسلے میں ہمار ا طریقہٴ کار اس طرح ہے: (۱) عام رہن سہن کی بیناد پرکسی کے محتاج ہونے کا ہم فیصلہ کرتے ہیں۔ (۲) کچھ غریب لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم سے زکاة کے پیسے مانگتے ہیں، اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ وہ غریب ہیں تو ہم پیسے دیدیتے ہیں۔ ہمارے ساتھ مسائل یہ ہیں: (۱) گاؤں کے بہت سے لوگ ہمارے اس نظام کے بارے میں شکایت کرتے ہیں کہ ہم غیر ضرورتمندافراد کو بھی زکاة کے پیسے دیدیتے ہیں۔ (۲) ایسے حالات میں ہم اس طرح کی تقسیم کے ذمہ دا رہوں گے۔ ہمارے سوالات یہ ہیں: (۱) کیا ہمارا یہ نظام شریعت کے مطابق درست ہے؟(۲) ہم کیسے معلوم کریں کہ کون غریب ہے اور کیا ہم اس کو زکاة کا پیسہ دیں ؟(۳) کسی کو غریب اور مستحق زکاة سمجھنے کے لیے کیا شرائط ہیں؟ براہ کرم، اس بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 32556

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 1095=921-8/1432 حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں زکاة کا نظام اجتماعی تھا، یعنی بیت المال کی طرف سے عاملین لوگوں سے زکاة وصول کیا کرتے تھے، اور بیت المال ہی سے مستحقین میں زکاة تقسیم ہوتی تھی؛ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب زکاة دینے والوں کی کثرت ہوگئی تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے زکاة کی ادائیگی کی ذمہ داری اربابِ اموال کو سپرد کردیا کہ ہرشخص اپنی زکاة خود ہی مستحقین میں تقسیم کردیا کرے، اب عاملین وصول کرنے کے لیے نہیں جائیں گے اور اس پر صحابہٴ کرام کا اجماع بھی ہوگیا۔ بدائع الصنائع میں ہے: ألا تری أنہ قال ”من کان علیہ دین لیوٴدہ ولیترک ما بقي من مالہ“ فہذا توکیل لأرباب الأموال بإخراج الزکاة (بدائع: ۲/۸۵، باب دین الزکاة) اب ہرشخص کا یہ فریضہ ہے کہ اپنی زکاة خود ہی تقسیم کرے، کوئی دوسرا شخص زکاة وصول کرکے مستحقین میں تقسیم کرنے کا مکلف نہیں، اس بنا پر آپ کا جو طریقہ ہے وہ شریعت کے مطابق نہیں ہے، ویسے بھی زکاة کے مسائل انتہائی نازک ہیں اس بنا پر بھی اپنے ذمے یہ کام نہیں لینا چاہیے۔ (۲، ۳) جو زکاة لینے کے لیے آئے اس سے آپ اچھی طرح تحقیق کرلیا کریں کہ اس کے پاس بقدر نصاب سونا، چاندی اور رقوم تو نہیں ہیں، خصوصاً عورتوں سے زیورات کے متعلق خوب اچھی طرح معلوم کرلیا کریں، کیونکہ ان کے پاس عموماً بقدر نصاب زیورات ہوتے ہیں اور مسئلہ معلوم نہ ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو وہ مستحق زکاة سمجھتی ہیں، اگر پڑوسی وغیرہ سے تحقیق ممکن ہو توان سے بھی معلوم کرلیں، غرضیکہ جب یقین ہوجائے کہ وہ مستحق زکاة ہے پھر زکاة دیا کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند