عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 32556
جواب نمبر: 32556
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب): 1095=921-8/1432 حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں زکاة کا نظام اجتماعی تھا، یعنی بیت المال کی طرف سے عاملین لوگوں سے زکاة وصول کیا کرتے تھے، اور بیت المال ہی سے مستحقین میں زکاة تقسیم ہوتی تھی؛ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب زکاة دینے والوں کی کثرت ہوگئی تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے زکاة کی ادائیگی کی ذمہ داری اربابِ اموال کو سپرد کردیا کہ ہرشخص اپنی زکاة خود ہی مستحقین میں تقسیم کردیا کرے، اب عاملین وصول کرنے کے لیے نہیں جائیں گے اور اس پر صحابہٴ کرام کا اجماع بھی ہوگیا۔ بدائع الصنائع میں ہے: ألا تری أنہ قال ”من کان علیہ دین لیوٴدہ ولیترک ما بقي من مالہ“ فہذا توکیل لأرباب الأموال بإخراج الزکاة (بدائع: ۲/۸۵، باب دین الزکاة) اب ہرشخص کا یہ فریضہ ہے کہ اپنی زکاة خود ہی تقسیم کرے، کوئی دوسرا شخص زکاة وصول کرکے مستحقین میں تقسیم کرنے کا مکلف نہیں، اس بنا پر آپ کا جو طریقہ ہے وہ شریعت کے مطابق نہیں ہے، ویسے بھی زکاة کے مسائل انتہائی نازک ہیں اس بنا پر بھی اپنے ذمے یہ کام نہیں لینا چاہیے۔ (۲، ۳) جو زکاة لینے کے لیے آئے اس سے آپ اچھی طرح تحقیق کرلیا کریں کہ اس کے پاس بقدر نصاب سونا، چاندی اور رقوم تو نہیں ہیں، خصوصاً عورتوں سے زیورات کے متعلق خوب اچھی طرح معلوم کرلیا کریں، کیونکہ ان کے پاس عموماً بقدر نصاب زیورات ہوتے ہیں اور مسئلہ معلوم نہ ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو وہ مستحق زکاة سمجھتی ہیں، اگر پڑوسی وغیرہ سے تحقیق ممکن ہو توان سے بھی معلوم کرلیں، غرضیکہ جب یقین ہوجائے کہ وہ مستحق زکاة ہے پھر زکاة دیا کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند