• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 32347

    عنوان: کیا عشر کا غلہ مدرسے میں دے سکتے ہیں؟

    سوال: ہمارے یہاں عام طورپر چاول پکاکے ، میٹھائی خرید کر ، بکری گائے ذبح کرکے آس پاس ہمسایوں میں تقسیم کرتے ہیں اور خود بھی اپنا حصہ نکالتے ہیں ، اس تقسیم میں امیر اور غریب بھائی برابر حصہ حاصل کرتے ہیں تو کیا یہ خیرات یا صدقہ کا اجر رکھتاہے؟ (۲) کیا عشر کا غلہ مدرسے میں دے سکتے ہیں؟ حالانکہ اس مدرسے میں امیر اور غریب بھی پڑھ رہے ہیں، مدرسے میں قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ (۳) ہمارے یہاں ایک رواج ہے کہ ہر عید سے تین دن پہلے جو مرگئے ہیں ان کے لیے عید کی جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ یہ مردوں کی عید ہے ، شریعت اسلامیہ میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ براہ کرم، وضاحت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 32347

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 1005=602-7/1432 (۱) اگر آپ کے یہاں صدقہ وخیرات کا مذکورہ بالا طریقہ بطور رسم کے کیا جاتا ہے تو یہ طریقہ لائق ترک ہے، اگر کسی کو ایصالِ ثواب کرنا ہو تو وہ کسی بھی وقت غرباء کو کچھ کھلاکر یا روپے وغیرہ صدقہ خیرات کرکے اس کا ثواب مرحومین کو پہنچایا جاسکتا ہے، واضح رہے کہ ایصالِ ثواب کے مستحسن غربا ومساکین وغیرہ ہیں۔ (۲) عشر کا غلہ مدرسہ میں دے سکتے ہیں، یہ اہل مدرسہ کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ عشر کے غلہ کو اس کے مصارف پر خرچ کریں۔ (۳) شریعت اسلامیہ میں مردوں کی عید کے نام سے کوئی عید نہیں ہے، یہ بے اصل ہے اس کا ترک ضروری ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند