• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 32212

    عنوان: کھیتوں، پھلوں میں عشر

    سوال: ہم سب سعودی عرب میں رہتے ہیں، یہاں ہم زمین ٹھیکے پر یا نصف پر کاشت کرنے کے لیے لیتے ہیں، زمین جو نصف پر لی گئی ہے، اس میں سے جو نصف ہمیں ملتاہے، اس میں سے عشر نکالتے ہیں، لیکن جو زمین ٹھیکے پر لی ہے ، اس میں سے پور ی فصل پر عشر ہے یا ٹھیکے کے پیسے ادا کرکے جو بچ جائے اس پر عشر دینا پڑے گا؟ (۲) ہم جو توت اور خوبانی کے درختوں کا پھل خرید کرتے ہیں تو کیا قیمت خرید نکالنے کے بعد عشر لازم ہوتاہے یا پھلوں سے جو ٹوٹل رقم نکلے اس پر عشر بنتاہے؟یا پھر باغ کے جو مالک ہیں اس پر عشر ہے؟براہ کرم، اس پر تفصیل سے جواب دیں۔

    جواب نمبر: 32212

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1052=632-6/1432 (۱) اگر اس زمین کی سینچائی کرکے کاشتکاری کی ہو تو ٹھیکے کے پیسے منہا کیے بغیر پوری پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہے اور اگر آسمان کے پانی سے سیراب ہوئی یا ندی اور دریا کے کنارے پر ترائی میں کوئی چیز بوئی اور بے سینچے پیدا ہوئی تو پیداوار کا دسواں حصہ نکالنا واجب ہے، اگر دونوں سے ہوئی تو اغلب کا اعتبار ہوگا یعنی سال کے اکثر دنوں میں جس چز سے سیرابی ہو اس کا اعتبار ہوگا۔ ویجب (العشر) في مسقی سماء أي مطر وسیح کنہر وجیب نصفہ في مسقي غرب أي دلو کبیر․․ ولو مسقي سیحًا وبآلة اعتبر الغالب أي أکثر السنة (درمختار مع الشامی: ۳/۲۶۹، کتاب الزکاة باب العشر، ط: زکریا) (۲) اگر تجارت کے لیے آپ نے توت اور خوبانی کے پھل خریدے ہیں تو یہ سامانِ تجارت کے مثل ہوگئے ان میں آپ پر عُشر یا نصف عُشر واجب نہیں بلکہ سال بھر گذارنے کے بعد جتنی مالیت کے پھل یا اس کی قیمت آپ کی ملک میں موجود ہوں گے اس کا ڈھائی فیصد زکاة میں نکالنا ضروری ہوگا، مالکانِ باغ پر پھر اُگانے کی وجہ سے عشر ہوگا بشرطیکہ سال کے اکثر ایام میں وہ بارش کے پانی سے سیراب ہوا ہو ورنہ نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب ہوگا۔ آپ پر مالِ تجارت ہونے کی وجہ سے زکاة واجب ہوگی عشر نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند