عنوان: میں نے اپنی بیوی کو اس کی اجازت سے طلاق دی۔ اس سے پہلے میں نے اس کو تین بار سوچنے کے لیے وقت دیا تھا۔ اس کے بعد اس نے دیدو کہا اور میں نے بول دیا، کیا یہ طلاق ہے یا خلع ؟میرے پیسے اور سونا اس کے پاس ہیں، کیا اسے واپس لے سکتاہوں ؟جب کہ میں نے کہا تھا کہ میرے سونے کی زکاة میں دوں گا اور تم اپنے سونے کی زکاة خود دینا۔ اس پر مجھے فتوی چاہئے۔
سوال: میں نے اپنی بیوی کو اس کی اجازت سے طلاق دی۔ اس سے پہلے میں نے اس کو تین بار سوچنے کے لیے وقت دیا تھا۔ اس کے بعد اس نے دیدو کہا اور میں نے بول دیا، کیا یہ طلاق ہے یا خلع ؟میرے پیسے اور سونا اس کے پاس ہیں، کیا اسے واپس لے سکتاہوں ؟جب کہ میں نے کہا تھا کہ میرے سونے کی زکاة میں دوں گا اور تم اپنے سونے کی زکاة خود دینا۔ اس پر مجھے فتوی چاہئے۔
جواب نمبر: 2825301-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(د): 42=42-1/1432
طلاق کے الفاظ آپ نے کیا بولے اس کی صراحت نہیں کی تاکہ طلاق کا حکم لکھا جاتا۔
آپ دونوں کے مکالمہ میں بظاہر خلع کا یا طلاق علی مال کے الفاظ معلوم نہیں ہوتے، اس لیے بس طلاق کے جو الفاظ آپ نے کہے ہیں، ان سے صرف طلاق واقع ہونے کا حکم ہوگا، جس رقم اور سونے کے آپ مالک تھے خواہ وہ بیوی کی تحویل میں رہے ہوں اب بھی اس کے مالک آپ برقرار رہیں گے اور زکاة آپ کے ذمہ واجب ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند