عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 27109
جواب نمبر: 2710901-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ھ): 2638=1023-11/1431
جبراً دینے کی ضرورت نہیں بلکہ ایسی صورت میں اس بیوہ کے بجائے کسی دوسرے مستحق کو دیدیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
جناب عالی میں آ پ سے یہ سوال پوچھنا
چاہتاہوں کہ میرے پاس ایک پلاٹ ہے جو کہ تجارتی مقاصد کے لیے خریدا ہے، میرا ارادہ
اس پر شاپنگ پلازہ بنانے کا ہے، کیا اس پلاٹ پر زکوة واجب الادا ہے؟ آپ کے جواب کا
انتظار رہے گا۔
کوئی فیملی ہے ، اس میں چھ افراد ہیں اور یہ سب بہن بھائی ہیں، ان کے والدین حیات نہیں ہیں۔ ان کی ماہانہ آمدنی تقریبا ۰۰۰،۸۰/ ہیں جس میں سے ۰۰۰،۲۰/ ان کے گھر کے کرائے ہیں اور ۰۰۰،۶۰/ سے ان کے اخراجات پورے ہورہے ہیں۔ ان کے پاس اثاثے نہیں ہیں،نہ کار، نہ گھر کا سامان حتی کہ ان کے پاس صوفے وغیرہ تک نہیں ہیں۔ اس صورت حال میں کیا ایسی فیملی میں کسی فیملی ممبر کی اگر شادی ہورہی ہو (اور ان کے پاس شادی کرنے کے لیے بظاہر ان کے پاس پیسے نہ ہوں) تو کیا زکاة دی جاسکتی ہے؟ کیوں کہ اس فیملی میں سے ایک لڑکی کی شادی ہونے والی ہے ، وہ اگر چاہے تو خود بھی ملازمت کرسکتی ہے مگر شادی کے اخراجات بہر حال اس کے بس سے باہر ہیں۔ تو ایسی صورت میں اس لڑکی کی شادی پر کیا زکاة کے پیسے لگا ئے جاسکتے ہیں؟ اور کیا یہ فیملی زکاة کی مستحق ہے....؟