• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 20268

    عنوان:

    کوئی فیملی ہے ، اس میں چھ افراد ہیں اور یہ سب بہن بھائی ہیں، ان کے والدین حیات نہیں ہیں۔ ان کی ماہانہ آمدنی تقریبا ۰۰۰،۸۰/ ہیں جس میں سے ۰۰۰،۲۰/ ان کے گھر کے کرائے ہیں اور ۰۰۰،۶۰/ سے ان کے اخراجات پورے ہورہے ہیں۔ ان کے پاس اثاثے نہیں ہیں،نہ کار، نہ گھر کا سامان حتی کہ ان کے پاس صوفے وغیرہ تک نہیں ہیں۔ اس صورت حال میں کیا ایسی فیملی میں کسی فیملی ممبر کی اگر شادی ہورہی ہو (اور ان کے پاس شادی کرنے کے لیے بظاہر ان کے پاس پیسے نہ ہوں) تو کیا زکاة دی جاسکتی ہے؟ کیوں کہ اس فیملی میں سے ایک لڑکی کی شادی ہونے والی ہے ، وہ اگر چاہے تو خود بھی ملازمت کرسکتی ہے مگر شادی کے اخراجات بہر حال اس کے بس سے باہر ہیں۔ تو ایسی صورت میں اس لڑکی کی شادی پر کیا زکاة کے پیسے لگا ئے جاسکتے ہیں؟ اور کیا یہ فیملی زکاة کی مستحق ہے....؟

    سوال:

    کوئی فیملی ہے ، اس میں چھ افراد ہیں اور یہ سب بہن بھائی ہیں، ان کے والدین حیات نہیں ہیں۔ ان کی ماہانہ آمدنی تقریبا ۰۰۰،۸۰/ ہیں جس میں سے ۰۰۰،۲۰/ ان کے گھر کے کرائے ہیں اور ۰۰۰،۶۰/ سے ان کے اخراجات پورے ہورہے ہیں۔ ان کے پاس اثاثے نہیں ہیں،نہ کار، نہ گھر کا سامان حتی کہ ان کے پاس صوفے وغیرہ تک نہیں ہیں۔ اس صورت حال میں کیا ایسی فیملی میں کسی فیملی ممبر کی اگر شادی ہورہی ہو (اور ان کے پاس شادی کرنے کے لیے بظاہر ان کے پاس پیسے نہ ہوں) تو کیا زکاة دی جاسکتی ہے؟ کیوں کہ اس فیملی میں سے ایک لڑکی کی شادی ہونے والی ہے ، وہ اگر چاہے تو خود بھی ملازمت کرسکتی ہے مگر شادی کے اخراجات بہر حال اس کے بس سے باہر ہیں۔ تو ایسی صورت میں اس لڑکی کی شادی پر کیا زکاة کے پیسے لگا ئے جاسکتے ہیں؟ اور کیا یہ فیملی زکاة کی مستحق ہے؟

    (۲) اگر زکاة کی رقم دی جاسکتی ہے تو کیا ان کو بتانا لازمی ہے؟ یا ان کے ہاتھ میں دینا لازمی ہے یا کوئی انتظام کرنے والا زکاة کے پیسوں سے شادی کے اخراجات ادا کردے؟

    (۳) شادی میں جو لوگ شریک ہوں گے تو اگر کھاناوغیرہ کا انتظام کیا جاتاہے تو کیاوہ سب زکاة کے پیسوں کا کھارہے ہوں گے؟

    (۴) یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس لڑکے سے شادی ہورہی ہے اس کی آمدنی تقریبا ۰۰۰،۳۰/ روپئے ہیں تو لڑکی کو جہیز میں یا شادی میں اخراجات پر جو زکاة کی رقم دی جائے گی تو اس سے اس لڑکے کو کیا فرق پڑے گا(یعنی بظاہر تو وہ لڑکا مستحق زکاة نہیں ہے)

    (۵) اگر زکاة کی رقم سے مدد نہیں کی جاسکتی ہے تو اور کیا طریقہ ہے؟ زکاة کے پیسوں سے کسی کی شادی کروائی جاسکتی ہے؟ یا اس کو شادی کے لیے سامان مثلا جہیز میں جو لازمی چیزیں ہوتی ہیں تو کیا وہ دی جاسکتی ہیں؟

    جواب نمبر: 20268

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 640=218tl-4/1431

     

    (۱-۲) اگر وہ لڑکی صاحب نصاب نہیں ہے تو اس کو زکوة دے سکتے ہیں، او رزکاة کی رقم اتنی ہی دے سکتے ہیں جس سے وہ صاحب نصاب نہ ہوجائے، اس سے زاید دینا درست نہیں۔ زکاة کی ادائیگی کے لیے زکاة کہہ کر دینا ضروری نہیں، ہبہ کہہ کر زکاة کی رقم دے سکتے ہیں، دل میں زکاة کی نیت کرلینا کافی ہے۔

    (۳) زکاة کی رقم براہِ راست کھانے میں خرچ کرنے سے زکاة ادا نہیں ہوگی۔ ہاں اگر وہ لڑکی مستحق زکاة ہے اور اس کو زکاة کی رقم دے کر مالک بنادیا جائے، بشرطیکہ اتنی رقم نہ ہو کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے اور پھر وہ رقم کھانے میں خرچ کی جائے تو ہرایک کے لیے اس کا کھانا جائز ہوگا، ان کے حق میں زکاة کا حکم نہیں ہوگا۔

    لڑکے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، لڑکا بیوی کی اجازت سے وہ سامان بھی استعمال کرسکتا ہے۔

    (۵) زکاة کے علاوہ ہدیہ وغیرہ کی رقم سے مدد کرسکتے ہیں، زکاة کے پیسوں سے بھی شادی کروائی جاسکتی ہے، بشرطیکہ جس کی شادی کرائی جارہی ہے وہ مستحق زکاة ہو، زکاة کی رقم سے سامان جہیز جو ضروری ہو خریدکر وہ بھی دے سکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند