عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 19811
میں ممبئی میں رہتا ہوں۔ ممبئی میں میری پانچ دکانیں ہیں، جو میں نے کرایہ پر دیا ہے۔ کرایہ پر دینے کے لیے یہاں پر جو قانون چلتاہے مثلاً میری ایک دکان ہے، سائز ہے 15*30=450اسکوائر فٹ۔ اس کا کرایہ میں نے نو ہزار روپیہ لیا۔ اور ڈپوزٹ پچاس ہزار روپیہ لیا۔ ڈپوزٹ کو میں استعمال کرتا ہوں اور جب کرایہ پر لینے والا خالی کرتا ہے تواس کو ڈپوزٹ واپس کرتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ ڈپوزٹ کو استعمال کرسکتے ہیں کہ نہیں؟ اور کرایہ پر دینے کے لیے اور ڈپوزٹ استعمال کرنے کے بارے میں شرع کا قانون کیا ہے؟ اور کرایہ پر زکوة کس طرح نکالی جاتی ہے؟ برائے کرم مجھ کو بتائیں تاکہ میں اپنی غلطی کو صحیح کرسکوں۔
میں ممبئی میں رہتا ہوں۔ ممبئی میں میری پانچ دکانیں ہیں، جو میں نے کرایہ پر دیا ہے۔ کرایہ پر دینے کے لیے یہاں پر جو قانون چلتاہے مثلاً میری ایک دکان ہے، سائز ہے 15*30=450اسکوائر فٹ۔ اس کا کرایہ میں نے نو ہزار روپیہ لیا۔ اور ڈپوزٹ پچاس ہزار روپیہ لیا۔ ڈپوزٹ کو میں استعمال کرتا ہوں اور جب کرایہ پر لینے والا خالی کرتا ہے تواس کو ڈپوزٹ واپس کرتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ ڈپوزٹ کو استعمال کرسکتے ہیں کہ نہیں؟ اور کرایہ پر دینے کے لیے اور ڈپوزٹ استعمال کرنے کے بارے میں شرع کا قانون کیا ہے؟ اور کرایہ پر زکوة کس طرح نکالی جاتی ہے؟ برائے کرم مجھ کو بتائیں تاکہ میں اپنی غلطی کو صحیح کرسکوں۔
جواب نمبر: 19811
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 298=220-3/1431
ڈپوزٹ رقم کی حیثیت امانت کی ہے اگر بطور ڈپوزٹ رقم دینے والا اس کے استعمال کی اجازت دیدے تو اس کا استعمال کرنا جائز ہوگا، لیکن اس وقت اس کی حیثیت قرض کی ہوجائے گی اور ضائع ہونے کی صورت میں ضمان لازم آئے گا۔
(۲) اگر آپ پہلے سے صاحب نصاب ہیں تو سال پورا ہونے پر جتنی رقم آپ کے پاس ہو اتنی کی زکاة ادا کردیں۔ کرایہ کی بچی رقم کو بھی اسی میں شامل کردیں۔ الگ سے اس کی زکاة ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند