• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 19384

    عنوان:

    گھریلو غریب ملازم کو زکاة دی جاسکتی ہے

    سوال:

    یہ بتادیجئے کہ گھریلو ملازم جو یتیم ہے (بیس سال کا ہے) اس کا کھانا، پینا، رہنا ہر کام ہمارے ذمہ ہے۔ اس کی تنخواہ بھی مقرر ہے جو ہم اس کے اکاؤنٹ میں کرواتے ہیں۔ اسے زکوة دی جاسکتی ہے؟ (۲)ہم ہمیشہ ہر سال اپنے سونے کے وزن کے حساب سے قیمت لگوا کر زکوة دیتے ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اندازے سے دے دیتے ہیں، کہ جتنے اوپر ہوئے وہ اللہ کی راہ میں صدقہ باقی زکوة۔ کیا یہ عمل درست ہے؟ بچے پر زکوة اور روزہ کس عمر سے فرض ہوتا ہے؟

    جواب نمبر: 19384

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(م): 197=197-2/1431

     

    (۱) اگر گھریلو ملازم مستحق زکاة ہے تو اس کو زکاة دی جاسکتی ہے، لیکن اس کے کام کی اجرت اور عمل کے معاوضہ میں دینا درست نہیں۔

    (۲) آپ کا عمل درست ہے، دوسرے لوگوں کو بھی چاہیے کہ پوری مالیت کا حساب لگاکر زکاة نکالا کریں، ہاں جہاں حساب کرنا دشوار ہو تو زیادہ سے زیادہ اندازہ لگاکر زکاة دینے کی گنجائش ہے، تاکہ زکاة کی ادائیگی ذمہ میں نہ رہ جائے، اور زائد نکالنے کا ثواب مزید مل جائے۔

    (۳) بالغ ہونے پر زکاة وروزہ وغیرہ کی فرضیت عائد ہوتی ہے۔ اور پندرہ سال ہونے پر بچہ بالغ شمار ہوتا ہے، بشرطیکہ اس سے پہلے بلوغ کی علامت احتلام وغیرہ ظاہر نہ ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند