• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 179849

    عنوان: كسی غریب كی بیوی یا اس كی بالغہ بیٹی كو زكاۃ دینا؟

    سوال:

    ایک شخص برین ٹیومر کا مریض ہے، اور دو سالوں سے بے روزگار ہے، کبھی کوئی چھوٹی موٹی کام کرلیتا ہے، ان کی بیوی بہت مشکل سے سلائی وغیرہ کرکے گھر سنبھالتی ہے ، لیکن ان کا اپنا گھر ہے اور گھر کے علاوہ ان کے پاس ایک پروپرٹی ہے جسے وہ رینٹ پر دینے کے لیے بنوائی ہے، اس حساب سے ان کو زکاة دینا جائز ہوگا ؟اور اگر جائز نہیں ہے تو زکاة میں ان کی بیوی کو دے سکتاہوں ؟ یا ان کی ایک بیٹی جو قریب پندرہ سال کی ہے بالغ ہے تو کیا ان کی بیٹی کو زکاة دینا جائز ہوگا ؟

    براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 179849

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:44-203/L=3/1442

     اگر ان صاحب کے پاس بقدرِ نصاب سونا ،چاندی، نقدی، یا مال تجارت نہیں ہے ، تو ان کو زکاة دی جاسکتی ہے ، رہائش کے لیے گھر، یا کرایہ پر دینے کے لیے پروپرٹی ضروریات میں داخل ہیں، ان کی وجہ سے ان کو زکاة نہ دینے کا حکم نہیں ہوگا،یہی حکم ان کی بیوی اور پندرہ سالہ بیٹی کا ہے کہ اگر ان کے پاس زیور ، نقدی، مال تجارت اور حاجتِ اصلیہ سے زائد سامان بقدرِ نصاب نہیں ہیں تو ان کو بھی زکاة دی جاسکتی ہے ۔

    لایجوز دفع الزکاة إلی من یملک نصابًا أی مال کان دنانیر أو دراہم أو سوائم أو عروضًا للتجارة أو لغیر التجارة فاضلاً عن حاجتہ فی جمیع السنة، ہکذا فی الزاہدی. والشرط أن یکون فاضلاً عن حاجتہ الأصلیة، وہی مسکنہ، وأثاث مسکنہ وثیابہ وخادمہ، ومرکبہ وسلاحہ، ولایشترط النماء إذ ہو شرط وجوب الزکاة لا الحرمان، کذا فی الکافی. ویجوز دفعہا إلی من یملک أقل من النصاب، وإن کان صحیحًا مکتسبًا، کذا فی الزاہدی.الفتاوی الہندیة (1/ 189)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند