• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 179832

    عنوان:

    باغ میں زکات کا حکم

    سوال:

    مفتی صاحب، ایک آدمی کے پاس بزنس (Business) کے علاوہ ناریل کا باغ ہے جس میں سال میں تین یا چار بار ناریل کی کٹای ہوتی ہے اور اسے [rupees] پیسہ حاصل ہوتے ہیں ! اس کا زکوہ کا مسئلہ بتائیں۔ براے مہربانی ہوگی ۔

    جواب نمبر: 179832

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:18-9/sn=1/1442

     صورت مسئولہ میں آم کے باغ سے جو کچھ آمدنی ہوگی اس پر(باغ کی مالیت پر نہیں ) حسب شرائط زکات واجب ہوگی یعنی جب آپ کا سال پورا ہوتا ہے اس وقت آپ کے پاس موجود دیگر قابل زکات اموال کے ساتھ آم کے باغ سے حاصل شدہ رقم میں سے جو موجود ہوگی ، اس کی بھی زکات ادا کی جائے گی، واضح رہے کہ باغوں پر زکات نہیں ؛ بلکہ عشر واجب ہوتا ہے ؛ لیکن ہندوستانی زمینیں چونکہ عشری نہیں ہیں؛ اس لیے صورت مسئولہ میں عشر کا حکم نہ ہوگا ؛ بلکہ صرف آمدنی پر حسب شرائط وجوب زکات کا حکم ہوگا جس کی تفصیل اوپر لکھ دی گئی ہے ۔

    ویجب العشر عند أبی حنیفة - رحمہ اللہ تعالی - فی کل ما تخرجہ الأرض من الحنطة والشعیر والدخن والأرز، وأصناف الحبوب والبقول والریاحین والأوراد والرطاب وقصب السکر والذریرة والبطیخ والقثاء والخیار والباذنجان والعصفر، وأشباہ ذلک مما لہ ثمرة باقیة أو غیر باقیة قل أو کثر ہکذا فی فتاوی قاضی خان سواء یسقی بماء السماء أو سیحا یقع فی الوسق أو لا یقع ہکذا فی شرح الطحاوی ویجب فی الکتان وبذرہ؛ لأن کل واحد منہما مقصود کذا فی شرح المجمع. [الفتاوی الہندیة 1/ 186،مطبوعة : زکریا ، دیوبند)نیز دیکھیں: بدائع الصنائع،2/176، زکریا)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند