• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 177921

    عنوان: وکالت نامہ پُر کرانے کے بعد زکات وصول کرکے بلا تملیک صرف کرنا کیسا ہے

    سوال: ایک مدرسہ میں زکوة کی رقم استعمال کرنے کا ایک طریوہ اپنایا ہوا ہے وہ یہ کہ ایک ''وکالت نامہ'' تیار کیا ہوا ہے اس میں لکھا ہے کہ میں ایک غریب آدمی ہوں میں اپنے بچہ کی مکمل تعلیمی خرچ برداشت نہین کرسکتا اس لیے آپ کو وکیل بناتا ہوں کہ آپ میرے بچہ کے لئے زکوة فطرہ وغیرہ حاصل کرکے اس پر استعمال کریں ۔اور اس پر دستخط لیتے ہیں تو کیا اس طرح سے اس مدرسہ والوں کا زکوہ لینا اور تملیک نا کرتے ہوئے خرچ کرنا جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 177921

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:823-628/sn=9/1441

     سوال میں یہ واضح نہیں ہے کہ زکات وصول کرنے کے بعد بلا تملیک طلبہ کے لیے کھانا اورناشتہ وغیرہ کے انتظام میں صرف کرتے ہیں یا مدرسہ کے ہر طرح کے اخراجات مثلا اساتذہ وملازمین کی تنخواہوں، تعمیرات اور مہمانوں کی ضروریات میں بھی استعمال کرتے ہیں ؟ بہر حال زکات اور صدقات واجبہ کی تملیک کی بہتر اور محتاط شکل یہ ہے کہ طلبہ کی تعلیم، کھانا، پانی بجلی اور دیگر ضروریات میں ماہانہ جتنا خرچ آتا ہو، وہ تمام طلبہ پر تقسیم کردی جائے اور ہر طالب علم کے حصے میں جتنی رقم آئے اتنی رقم ہر مستحقِ زکات طالب علم کو بہ طور وظیفہ دے کر بہ مد فیس وصول کرلی جائے او ر جو غیرمستحق طلبہ ہوں وہ فیس کی رقم اپنے پاس سے ادا کردیں۔(تفصیل کے لئے دیکھیں: چند اہم عصری مسائل2/192،ط: مکتبہ دارالعلوم دیوبند)؛ البتہ یہ بات واضح رہے کہ اگر طلبہ نابالغ ہوں تو ان کے والد کا بھی مستحق زکات ہونا ضروری ہے ،تبھی انھیں زکات کی رقم دے کر بہ مد فیس وصول کرنے کی گنجائش ہوگی، بہ مدفیس جو رقم وصول ہوگی اسے طلبہ کی جملہ ضروریات میں خرچ کرنے کی گنجائش ہے ۔

     مذکور فی السوال مدرسہ کے ذمے داران کو چاہیے کہ وکالت نامہ پر کرانے کے بہ جائے مندرجہ بالا طریقہ اختیار کریں، یہ بالکل بے غبار شکل ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند