عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 177270
جواب نمبر: 177270
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:602-494/N=8/1441
ہیرا گولڈ کمپنی میں سرمایہ کاری اگر شرعی اصول کے مطابق جائز ہے تو انویسٹر کے لیے نفع بھی جائز ہوگا۔ اور اگر یہ سرمایہ کاری شرعی اصول کے مطابق جائز نہیں ہے؛ بلکہ یہ سودی طریقہ ہے تو نفع جائز نہ ہوگا؛ بلکہ ایسا نفع بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدینا چاہیے۔ پہلی صورت میں ہر سال اصل اور نفع دونوں پر زکوة واجب ہوگی؛ کیوں کہ مال تجارت میں اصل سرمایہ اور نفع پر زکوة واجب ہوتی ہے، صرف اصل سرمایہ پر نہیں۔ اور دوسری صورت میں چوں کہ نفع واجب التصدق ہے؛ اس لیے صرف انویسٹ کی گئی رقم پر زکوة واجب ہوگی۔
(والمستفاد) ولو بھبة أو إرث (وسط الحول یضم إلی نصاب من جنسہ) فیزکیہ بحول الأصل (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب زکاة الغنم، ۳: ۲۱۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۵: ۵۱۶، ۵۱۷، ت: الفرفور، ط: دمشق)، قولہ: ”ولو بھبة أو إرث“:أدخل فیہ المفاد بشراء أو میراث أو وصیة وما کان حاصلاً من الأصل کالأولاد والربح کالنھر(رد المحتار)، ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء……،قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند