• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 175586

    عنوان: تنخواہ میں سے كتنا صدقہ كیا جاسكتا ہے؟

    سوال: امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے مجھے آپ سے سوال پوچھنا تھا کہ آدمی اپنے ماہانہ تنخواہ یا تنخواہ میں سے کتنے پیسے صدقہ کرسکتا ہے؟ نفلی صدقہ کیا ہے؟ کیا صدقہ کے ایک سے زیادہ اقسام ہیں؟ میں نے سنا ہے کہ آپ کے کمائی کا دسواں حصہ کرکے پھر اس میں صدقہ دیں۔ بعض اللہ کے بندے تین حصے کرتے ہیں پہلا حصہ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں دوسرا حصہ اپنے فیملی پر خرچ کرنا اور باقی اپنے کاروبار یا روزگار صرف کرنا۔

    جواب نمبر: 175586

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 370-73T/D=05/1441

    (۱) فرض، جیسے : زکاة۔ (۲) واجب، جیسے: صدقہ فطر وغیرہ۔ (۳) نفلی صدقہ: نفلی صدقہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی خوشنودی کے لئے کسی کارِ خیر میں مال خرچ کرنا۔ شریعت مطہرہ نے نفلی صدقات کی کوئی تحدید بیان نہیں کی اور نہ اس کی کوئی پابندی ہے، بلکہ جو مال اپنی ضروریات سے بچے اس میں سے اپنی خوشنودی سے صدقہ کرے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے نفلی صدقہ کے بارے میں پوچھا تھا کہ: کتنی مقدار اللہ کی راہ میں خرچ کریں، تو بذریعہ وحی اللہ تعالی نے آیت نازل فرمائی: (یسئلونک ماذا ینفقون ، قل العفو ۔ ) یعنی وہ لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ: خیرو خیرات میں کتنا خرچ کیا کریں، آپ فرما دیجئے کہ: جتنا آسان ہو (کہ اس کے خرچ کرنے سے خود پریشان ہوکر دنیوی تکلیف میں یا کسی کا حق ضائع کرکے اخروی تکلیف میں پڑ جائیں) معارف القرآن: ۱/۵۳۸)

    لہٰذا آپ اپنے رب کریم کی خوشنودی کے لئے اپنی ضروریات سے زائد بچنے والے مال میں سے جس قدر خوشی سے ہو صدقہ کریں، مقدار کی کوئی تحدید نہیں ہے، باقی جو لوگ اپنی کمائی کا دسواں حصہ یا تہائی حصہ صدقہ کرتے ہیں، یہ اچھی بات ہے، لیکن اس کی کوئی پابندی نہیں ہے آدمی جتنا چاہے خرچ کرسکتا ہے، اور اگر کسی کی فیملی بڑی ہے تو وہ اپنی فیملی پر ایک تہائی سے زیادہ بھی خرچ کر سکتا ہے، کسی کے حق میں کمی کرنا یا کسی کو پریشانی میں ڈالنا جائز نہ ہوگا۔ بعض بزرگان دین اپنے حالات کے تحت تین حصے کرتے تھے، جیسا کہ آپ نے لکھا ہے، آپ بھی اپنے حالات کے تحت ایسا کر سکتے ہوں، تو بہت اچھی بات ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند