عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 175586
جواب نمبر: 175586
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 370-73T/D=05/1441
(۱) فرض، جیسے : زکاة۔ (۲) واجب، جیسے: صدقہ فطر وغیرہ۔ (۳) نفلی صدقہ: نفلی صدقہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی خوشنودی کے لئے کسی کارِ خیر میں مال خرچ کرنا۔ شریعت مطہرہ نے نفلی صدقات کی کوئی تحدید بیان نہیں کی اور نہ اس کی کوئی پابندی ہے، بلکہ جو مال اپنی ضروریات سے بچے اس میں سے اپنی خوشنودی سے صدقہ کرے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے نفلی صدقہ کے بارے میں پوچھا تھا کہ: کتنی مقدار اللہ کی راہ میں خرچ کریں، تو بذریعہ وحی اللہ تعالی نے آیت نازل فرمائی: (یسئلونک ماذا ینفقون ، قل العفو ۔ ) یعنی وہ لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ: خیرو خیرات میں کتنا خرچ کیا کریں، آپ فرما دیجئے کہ: جتنا آسان ہو (کہ اس کے خرچ کرنے سے خود پریشان ہوکر دنیوی تکلیف میں یا کسی کا حق ضائع کرکے اخروی تکلیف میں پڑ جائیں) معارف القرآن: ۱/۵۳۸)
لہٰذا آپ اپنے رب کریم کی خوشنودی کے لئے اپنی ضروریات سے زائد بچنے والے مال میں سے جس قدر خوشی سے ہو صدقہ کریں، مقدار کی کوئی تحدید نہیں ہے، باقی جو لوگ اپنی کمائی کا دسواں حصہ یا تہائی حصہ صدقہ کرتے ہیں، یہ اچھی بات ہے، لیکن اس کی کوئی پابندی نہیں ہے آدمی جتنا چاہے خرچ کرسکتا ہے، اور اگر کسی کی فیملی بڑی ہے تو وہ اپنی فیملی پر ایک تہائی سے زیادہ بھی خرچ کر سکتا ہے، کسی کے حق میں کمی کرنا یا کسی کو پریشانی میں ڈالنا جائز نہ ہوگا۔ بعض بزرگان دین اپنے حالات کے تحت تین حصے کرتے تھے، جیسا کہ آپ نے لکھا ہے، آپ بھی اپنے حالات کے تحت ایسا کر سکتے ہوں، تو بہت اچھی بات ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند