عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 173834
جواب نمبر: 173834
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:110-93/N=2/1441
جی ہاں! اگر کسی نے مدرسہ میں صدقہ کی نیت سے بکرا دیا کہ ذبح کرکے طلبہ کو کھلادیا جائے اور وہ کسی بیمار کی بیماری میں جان کے بدلے جان کے طور پر ذبح کیے جانے کے مقصد سے نہیں دیا گیا ہے تو مہتمم مدرسہ پر بعینہ وہی بکرا ذبح کرکے طلبہ کو کھلانا ضروری ہے، بکرا فروخت کرکے اس کا پیسہ مطبخ کی مد میں یا کسی اور مصرف میں لگانا جائز نہ ہوگا؛ کیوں کہ اس طرح کے چندے میں مہتمم محض وکیل اور امین ہوتا ہے، وہ اس میں چندہ دہندہ کی منشا کے مطابق ہی تصرف کا اختیار رکھتا ہے، اس کے منشا کے خلاف کسی تصرف کا مالک نہیں ہوتا۔
اور اگر مدرسہ میں کوئی بکرا کسی بیمار کی بیماری پر جان کے بدلے جان کے طور پر ذبح کیے جانے کے لیے آئے تو مہتمم کے لیے ایسا بکرا لینا ہی جائز نہیں؛ کیوں کہ جان کے بدلے جان کے طور پر جانور ذبح کرنا شریعت میں ممنوع ہے اور یہ ہندوں کے یہاں رائج بھینٹ جیسی چیز ہے (امداد الفتاوی، ۳: ۵۷۰، ۵۷۱، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند، احسن الفتاوی، ۱: ۳۶۷، مطوعہ: ایچ، ایم سعید کراچی، وغیرہ)۔
وھنا الوکیل إنما یستفید التصرف من الموٴکل وقد أمرہ بالدفع إلی فلان فلا یملک الدفع إلی غیرہ کما لو أوصی لزید بکذا لیس للوصي الدفع إلی غیرہ (رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۸۹ط مکتبة زکریا دیوبند) ، وفیھا - أي فی الیتیمة - سئل عمر الحافظ عن رجل دفع إلی الآخر مالاً، فقال لہ: ” ھذا زکاة مالي فادفعھا إلی فلان“ ، فدفعھا الوکیل إلی آخر ھل یضمن؟ فقال: نعم، لہ التعیین (الفتاوی التاتارخانیة، کتاب الزکوة،الفصل التاسع فی المسائل المتعلقة بمعطی الزکاة، ۳: ۲۲۹ط مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند