• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 171190

    عنوان: کاروبار کے لیے خرید کردہ زمین پر زکوة کا حکم

    سوال: کارو بار کے لیے میں نے زمین لی ہے،اس جگہ پر کام کررہے ہیں تو کیا اس زمین پر زکاة ہوگی یا نہیں؟

    جواب نمبر: 171190

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:882-729/N=11/1440

    ” کاروبار کے لیے“ کا مطلب اگر یہ ہے کہ آپ نے وہ زمین فروخت کرنے کی غرض سے خریدی ہے تو یہ چوں کہ شریعت کی نظر میں مالِ تجارت ہے؛ اس لیے حسب ضابطہ سالانہ اِس کی زکوة واجب ہوگی۔ اور اگر آپ اس زمین پر دکان یا فیکٹری لگاکر الگ سے کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو زمین کی مالیت پر کوئی زکوة واجب نہیں ہوگی۔

    وما اشتراہ لھا أي: للتجارة کان لھا لمقارنة النیة لعقد التجارة لا ما ورثہ ونواہ لھا لعدم العقد إلا إذا تصرف فیہ ، أي: ناویاً فتجب الزکاة لاقتران النیة بالعمل، ولو نوی التجارة بعد العقد أو اشتری شیئاً ناویاً للقنیة وٴنہ إن وجد ربحہ باعہ لا زکاة علیہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۹۳-۱۹۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”لا زکاة علیہ“:لفقد نیة التجارة زمن العقد وھو محترز قولہ:وشرط مقارنتھا (حاشیة الطحطاوي علی الدر ۱: ۳۹۷،ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)، ولو اشتری قدرواً من سفر یمسکھا أو یوٴاجرھا لا تجب فیھا الزکاة کما لا تجب في بیوت الغلة (الفتاوی الخانیة علی ھامش الفتاوی الھندیة، ۱: ۲۵۱، ط: المطبعة الکبری الأمیریة بولاق، مصر)، وکذلک آلات المحترفین إلا ما یبقی أثر عینہ کالعصفر لدبغ الجلد ففیہ الزکاة بخلاف ما لایبقی کصابون یساوي نصباً وإن حال الحول (الدر المختار مع رد المحتار، أول کتاب الزکاة، ۳: ۱۸۳)، وانظر رد المحتار أیضاً۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند