• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 171170

    عنوان: ایل آئی سی کی رقم کو بھی شامل کرنا ہوگا یا نہیں؟

    سوال: میں نے ایک آیل آئی سی اسکیم لی ہے، زکاة نکالتے وقت اس ایل آئی سی کی رقم کو بھی شامل کرنا ہوگا یا نہیں؟ یہ سالانہ جمع کرنے کی اسکیم ہے جو کہ ۱۸ سال تک چلے گی،اس کے بعد ہی جمع پیسہ ملے گا۔

    جواب نمبر: 171170

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:872-720/N=10/1440

    ایل آئی سی اسلام میں حرام ہے؛ کیوں کہ اس میں سود اور قمار (جوے) دونوں ہوتے ہیں اور یہ دونوں شریعت میں قطعی طور پر حرام ہیں۔ اور اگر کسی مسلمان نے لاعلمی میں یا نفس کے بہکاوے میں آکر ایل آئی سی لے لی ہے تو اس سے جلد جلد سبک دوش ہونے کی کوشش کرے۔ اور اگر درمیان میں اسکیم بند کروانے کی صورت میں اصل جمع کردہ کل پیسہ یا اس کا کچھ حصہ ضائع ہوتا ہو تو (نقصان سے بچنے کے لیے) مجبوراً اسکیم جاری رکھے اور اسکیم کی تکمیل پر جو رقم ملے، اُس میں سے صرف اصل جمع کردہ رقم اپنے استعمال میں لائے اور باقی زائد پیسہ بلانیت ثوب غربا ومساکین کو دیدے؛ کیوں کہ زائد پیسہ خالص سود ہے ۔ اور اس درمیان زکوة ادا کرنے میں صرف اصل جمع کردہ رقم کی زکوة ادا کرے گا، زائد پیسوں کی نہیں۔ اور چوں کہ اصل جمع کردہ پیسہ ابھی اس کے قبضے میں نہیں آیا ہے ؛ اس لیے اگر ہر سال کا الگ الگ حساب لگاکر اسکیم کی تکمیل پر جب پیسہ وصول ہوجائے تو گذشتہ تمام سالوں کی زکوة ادا کرے تو ایسا کرنے میں کچھ حرج نہیں؛ البتہ حساب کی دشواری سے بچنے کے لیے مناسب یہ ہے کہ ہر سال حساب لگاکر اس وقت تک اصل جمع کردہ رقم کی زکوة ادا کردیا کرے۔

    قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)، یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون( المائدة، ۹۰)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر(المسند للإمام أحمد،۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱)،﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة(معالم التنزیل ۲: ۵۰)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخری، وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص(رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة،باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ولو کان الدین علی مقر ملیٴ أو معسر أو مفلَّس أي: محکوم بإفلاسہ……فوصل إلی ملکہ لزم زکاة مامضی (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۸۴، ۱۸۵)، الوصول إلی ملکہ غیر قید؛ لأنہ لو أبرأ مدیونہ الموسر تلزمہ الزکاة؛ لأنہ استھلاک (رد المحتار، ۳: ۱۸۵)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند