• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 170093

    عنوان: كیا ایک صدقہ فطر کی رقم ایک سے زیادہ غرباء کو دے سکتے ہیں؟

    سوال: (۱) مسجد کاایک مکان کرائےء پر دیا گیا تھا ، اب کرایہ دار بڑی رقم مانگتاہے تو کیا بینک انٹریسٹ کا پیسہ دے کر اس سے قبضہ لے لیا جائے اور پھر موقع بہ موقع مسجد میں جمع ہونے والی رقم کسی غریب کو دے کر وہ انٹریسٹ ادا کردیائے تو کیا یہ صورت جائز ہے؟ (۲) زکاة کے متعلق، قرض دینے والا اور لینے والا اسی طرح رقم رکھنے والا اوررقم رکھوانے والا کب اور کتنی زکاة ادا کرے گا؟ یعنی ہر سال؟ کتنی رقم پر؟ اسی بات کو واضح کرنے کے لیے مثال کے ساتھ یہ سوال دو بار پوچھتا ہوں؛ (a) میرے پاس کچھ رشتہ داروں کی رقم جمع ہے، اس میں سے کچھ تو میں اپنے ذاتی خرچوں میں استعمال کیا، کچھ سے قرض ادا کیا، کچھ سے والدین کے ورثہ کاادا کیا اور کچھ رقم میرے پاس ابھی جمع ہیں، اصل مالک کے مانگنے پر اور ان کی اجرت پر ان شاء اللہ میں ان کی رقم ادا کردوں گا، الحمدللہ، میرے پاس جو رقم جمع ہے اس میں سے یہ امانت کو نکال کر میری زکاة کی گنتی ہوگی؟ مثلاً میری بیوی اور نابالغ بچوں کے ایک لاکھ روپئے میرے پاس تھے ، اس میں سے پچاس ہزار روپئے استعمال کرڈالے، جس دن میرے کو زکاة کی گنتی کرنی ہے اس دن میرے پاس دو لاکھ روپئے ہیں تو میں اصل مالک کی رقم ایک لاکھ روپئے نکال باقی ایک روپئے پر زکاة کروں گا یا موجودہ پچاس روپئے کو بھی نکال کو باقی ڈیڑھ لاکھ پر زکاة ادا کرنا ہے یا پورے دو لاکھ پر زکاہ دینی ہے؟ (b) اوپر کی صورت میں میری بیوی کے 75000روپئے تھے تو اب بیوی اس رقم کی زکاة نکالے گی یا 25,000کی یا ابھی اس کو اس سال 75000کی زکاة نکالنی ہے؟ (c)نابالغ بچوں کو ابھی زکاة ادا نہیں کرنی ہے؟ (d)اور میں بیوی کو جس سال رقم واپس کرتاہوں تو صرف اس سال زکاة نکالے گی یا پچھلے سالوں کی بھی زکاة ادا کرنی ہوگی؟ (e) کیا اس صورت میں ایک رقم کی زکاة دو بار ادا ہوگی؟ ایک سال مالک ادا کرے گا ، دوسرا قرض دار؟ ہمارے مرحوم والدین کے ورثہ بہنوں کو کچھ تو میں ادا کرچکا ہوں اور ابھی دس لاکھ ادا کرنا باقی ہے، اور جیسا کہ ہم نے سمجھا ہے اس باقی رقم کو میں ماہانہ فکس رقم کے طورپر ادا کرتا جاتاہوں۔ (f) الحمد للہ، تو ابھی تک جو رقم ادا کرنی باقی ہے اس کو میرے اوپر قرض سمجھ کر میری زکاة کی گنتی کے وقت اس کو وضع کرنا ہے یا نہیں؟ (g)کچھ لوگ ہم سے ادھار مانگتے ہیں اور وعدہ بھی کرتے ہیں کہ رمضان میں دیدیں گے مگر ان کی حالت دیکھتے ہوئے ایسا ہی لگتاہے کہ یہ روپیہ واپس نہیں آئے گا، تو اس طرح دی ہوئی رقم پر ہم کو ہر سال زکاة ادا کرنی ہے یا رقم واپس مل جانے کے بعد پچھلے سالوں کی زکاة ادا کرنی ہے؟(h) مثلاً ہم نے کسی سے ایک لاکھ روپئے قرض لیا مگر ابھی اس کو استعمال نہیں کیا تو زکاة گننے کے دن اس کو ہمارا کل ملکیت سمجھیں گے یا قرض وضع ہوگا؟ اصل مالک اس کی زکاة ادا کرے گا؟ یا رقم واپسی کے سال؟ یا اصل مالک ہر سال کے حساب سے رقم واپسی پر زکاة ادا کرے گا؟(i) پچھلے سال کی زکاة کی کچھ رقم ادا کرنا بابھی باقی ہے اور اس سال کی گنتی کرنے کا دن آیا تو یہ رقم پر بھی زکاة ادا کرنی ہے؟ (j) بینک کا سود جو بینک میں جمع ہے اس پر بھی زکاة ادا کرنی ہے؟(k) کسی غریب کو شادی کے لیے زکاة کی رقم سے پچاس ساٹھ ہزار کا جہیز کا سامان (جیسا کہ فرنیچر ، کپڑے، کچھ کا سامان، واشنگ مشین) دلایا جائے تو زکاة ادا ہوگی (جب کہ آج کل پچیس تیس ہزار روپئے کا نصاب بنتاہے ، یہ دی ہوئی چیز مال نامی نہیں ہے) ؟ اور یہ سامان دینے کے بعد بھی وہ زکاة مستحق رہے گی ؟ (۳) صدقہ فطر؛ایک صدقہ فطر کی رقم ایک سے زیادہ غرباء کو دے سکتے ہیں؟ ایک سے زائد صدقہ فطر کی رقم ایک ہی غریب کو دے سکتے ہیں؟ (۴) قسم کا کفارہ ، ایک قسم کا کفارہ دینی مدارس میں زکاة کے نام سے ادا کرایا تو کیا یہ کفارہ ادا ہوجا ئے گا؟

    جواب نمبر: 170093

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 885-129T/D=09/1440

    کرایہ دار جو ناجائز طور پر بھاری رقم مانگ رہا ہے اس کا یہ عمل ناجائز اور حرام ہے لیکن انٹرسٹ کی رقم اس کا مطالبہ پورا کرنے میں استعمال نہیں کی جاسکتی کیونکہ انٹرسٹ کی رقم واجب التصدق ہوتی ہے کسی طرح بھی اسے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے ہاں کسی غریب کو مالک بناکر اگر دیدیں پھر وہ اپنی خوشی سے اپنی طرف سے کرایہ دار کو ادا کرکے مکان خالی کروادے تو اس کا یہ عمل بہت اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔

    (۲) (A) زکاة کا حساب جس روز کریں گے اس دن جس قدر سونا، چاندی نقد روپئے یا مال تجارت (اگر آپ کچھ تجارت بھی کرتے ہوں) سب کی قیمتیں ملاکر کل میزان میں سے قرضوں کو کم کردیں مثلاً ایک لاکھ امانت کے (جو آپ نے مختلف جگہوں میں خرچ کئے) اور پچاس ہزار (50,000) جو بیوی اور نابالغ بچوں کے آپ نے خرچ کر دیئے اور پچاس ہزار بیوی بچوں کے جو بطور امانت موجود ہیں انہیں بھی کم کردیں پھر جو کچھ بچے اس کی زکاة ادا کی جائے۔

    اپنی دی ہوئی مثال میں اس طرح سمجھیں کہ دو لاکھ نقد آپ کے پاس ہیں تو اس میں سے ایک لاکھ جو دوسروں کی امانت تھی اسے کم کردیں اور ایک لاکھ بیوی اور نابالغ بچوں کی ہے وہ بھی کم کردیں تو آپ کی ملکیت میں کچھ بھی نہیں بچا لہٰذا آپ پر زکاة واجب نہ ہوگی؛ البتہ بیوی اور نابالغ کی امانت کی رقم کی زکاة ان پر ہوگی یعنی بیوی پرہوگی اور بچوں پر زکاة واجب نہیں۔

    (B) بیوی اگر پچھتر ہزار (75,000) کی مالک تھی تو اس کی زکاة سال پورا ہونے پر وہی نکالے گی۔

    (C) جی ہاں نہیں نکالنی ہے ۔

    (D) پچھلے سالوں کی بھی۔

    (C) نہیں دوبارہ نہیں نکلے گی صرف مالک زکاة نکالے گا قرض دار نہیں جیسا کہ (A) میں وضاحت کر دی گئی۔

    (F) یہ آپ پر قرض نہیں ہے یہ ترکہ میں سے آپ ادا کر رہے ہوں گے ترکہ کیا ہوا؟

    (G) واپس ملنے کے بعد پچھلے سالوں کی زکاة ادا کردیں اور اگر سال کے سال ادا کرتے رہیں تو بہتر ہے۔

    (H) قرض وضع ہوگا۔ اس کی زکاة مالک ادا کرے گا اسے دونوں اختیار ہے چاہے ہر سال اداکرتا رہے چاہے واپس ملنے کے بعد پچھلے سالوں کی ادا کردے۔

    (I) نہیں اس پر زکاة نہیں نکالی جائے گی۔

    (L) نہیں سود کی کل رقم واجب التصدق ہے اس پر زکاة نہیں۔

    (K) کسی غریب کو نقد یا سامان کی شکل میں اس قدر زکاة دینا جس سے وہ صاحب نصاب ہو جائے مکروہ ہے اور جہیز وغیرہ میں دینے سے ایک مرتبہ صاحب نصاب ہو جانے کے بعد دوبارہ اس لڑکی کودینا جائز نہیں۔

    (۳) جی ہاں دونوں شکلیں جائز ہیں۔

    (۴) کفارہ کے ادا کرنے کے لئے شرائط ہیں اس لئے مدرسہ میں یہ کہہ کر دیا جائے کہ فلاں قسم کے کفارہ کی رقم ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند