• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 169801

    عنوان: کیا زکوۃ کی رقم انوسٹ کرنا جائز ہے؟

    سوال: امید ہے آپ سب حضرات بعافیت ہوں گے ۔ زکوٰة کی ادائیگی سے متعلق ایک مسئلہ کے بارے میں ضروری وضاحت درکار ہے ۔ اگر کسی شخص (یا ادارے )کے پاس زکوٰة کی رقوم بطور وکیل جمع ہوتی رہیں اور زکوٰة دہندہ کی طرف سے مذکورہ وکیل کو مکمل اختیار ہوکہ وہ اپنی صوابدید پر جہاں اور جیسے مناسب سمجھے خرچ کرے ۔ مستحقین زکوة کے فائدہ کے خاطر مذکورہ وکیل وہ رقوم مستحقین زکوة میں تقسیم کرنے کے بجائے یہ سوچ کر ایک منافع بخش کاروبار میں انوسٹ کردیتا ہے کہ کہ منافع حاصل ہونے کے بعد مستحقین میں تقسیم کردونگا۔چنانچہ ایک سال کے بعد وہ ان اموال کو بمع اضافہ مستحقین میں تقسیم کردیتا ہے ۔ یا زکوة کی رقم میں سے کچھ حصہ ۱۰ فیصد یا ۲۰ فیصد انوسٹ کردیتا ہے اور باقی رقم تقسیم کریں؛ 1. اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں زکوٰة دہندہ کی زکوٰة اداہوگی؟ 2. مذکورہ صورت میں تملیک واقع ہو گی؟ 3. کیا زکوٰة کی ادایگی میں اس طرح کی تاخیر کی جاسکتی ہے ؟ 4. کاروبار میں نقصان ہوجانے کی صورت میں زکوة ادا ہوگی یا نہیں؟ اگر نہیں تو کس کے ذمہ ادائیگی ہے ؟ اللہ آپ حضرات کو دین کی اشاعت اور سربلندی کیلئے تادیر بعافیت رکھے ، آمین۔

    جواب نمبر: 169801

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 788-738/M=08/1440

    زکاة کی رقم، کاروبار میں انویسٹ کرنا درست نہیں ہے زکاة وصولنے والا شخص یا ادارہ صرف معطی (زکاة دہندہ) کا وکیل ہے یا فقراء ومستحقین کا بھی وکیل ہے؟ اور وکالت کا معاملہ کس طرح اور کن الفاظ میں طے ہوا ہے؟ صورت حال واضح نہیں ہے اس لئے کچھ عرض کرنے سے معذرت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند