عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 168104
جواب نمبر: 168104
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:531-530/L=6/1440
زکوة ودیگرصدقاتِ واجبہ کے مصارف فقراء مساکین وغیرہ ہیں جن پرتملیکاً خرچ کرنا ضروری ہے ،آپ نے ازایک تا بارہ نمبر جو تفصیل ذکر کی ہے جن میں رقومات خرچ کی جاتی ہیں ان جگہوں میں براہِ راست زکوة ،صدقہ فطر ودیگر صدقاتِ واجبہ کی رقم خرچ کرنا جائز نہیں کہ ان جگہوں پر خرچ کرنے میں تملیک(مالک بنائے جانے )کا تحقق نہیں ہوتا ؛البتہ اگر تملیکِ شرعی کا تحقق ہوجائے بایں طور کہ زکوة وغیرہ کی رقم مستحقِ زکوة طلباء کو دے کر ان کو مالک وقابض بنا دیا جائے اور ان کو مکمل اختیار دیدیا جائے کہ اگروہ اس رقم کواپنے مصرف میں لانا چاہیں تو ان کو اس کا مکمل اختیارہو اس کے بعد اگر وہ بخوشی مدرسہ میں دیدیں تو اہلِ مدارس کے لیے ان رقومات کو مذکورہ بالا چیزوں میں خرچ کرنے کا اختیار ہوگا ،آج کل مدارس میں تملیک کے جو طریقے رائج ہیں بالعموم ان میں تملیک شرعی کا تحقق نہیں ہوتا بس ہاتھ کی ہیرا پھیری ہوتی ہے جو تملیکِ شرعی کے لیے کافی نہیں ،حضرت مفتی سعید صاحب دامت برکاتہم العالیہ فتاوی دارالعلوم کے حاشیہ میں حیلہ تملیک کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حیلہ تملیک اس وقت حیلہ ہے جب کہ واقعی تملیک مقصودہو، ورنہ وہ حیلہ ہی نہیں ہے ، اور آج کل اہل مدارس وغیرہ جو حیلہ کرتے ہیں: اس میں واقعی تملیک نہیں ہوتی، محض ظاہری طورپر طالب علم وغیرہ کسی غریب کو دیاجاتاہے پھر اس سے واپس لے لیا جاتا ہے ، اور اگر طالب علم وغیرہ فقیراس کو لے کر چل دے تو اس سے زبردستی لے لیاجاتاہے ، یہ قطعًا حیلہ تملیک نہیں ہے ، ایسے حیلہ سے کوئی حلت پیدا نہیں ہوتی۔ (حاشیہ فتاوی دارالعلوم :۱۵/ ۵۹۱)
اس لیے بعض اہلِ فتوی نے یہ ترکیب بیان کی ہے کہ طالب علم پر ماہانہ فیس مقرر کردی جائے اور فیس مقرر کرنے میں اساتذہ کی تنخواہیں بھی ملحوظ ہوں پھر جو طالب علم مستحقِ زکوة ہو اس کو زکوة وغیرہ کی رقم دے کر فیس میں وصول کرلی جائے ،بوقتِ ضرورت یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند