عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 166470
جواب نمبر: 166470
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:189-272/N=4/1440
(۱): کوئی سفیر چندہ کا پیسہ اپنے استعمال میں نہیں لاسکتا؛ بلکہ سارا پیسہ ذمہ دار مدرسہ کو لے جاکر سپرد کرنا ضروری ہے۔
(۲): اجارہ میں اجرت اور عمل دونوں کا معلوم ومتعین ہونا ضروری ہے،دونوں میں کسی ایک کی بھی جہالت اجارہ کو فاسد کردیتی ہے اور نیزاجیر کے عمل سے حاصل ہونے والی چیز سے اجرت مقرر کرنا بھی جائز نہیں اور فیصدی کمیشن پر چندہ کے معاملہ میں یہ تینوں خرابیاں پائی جاتی ہیں؛ اس لیے کمیشن پر چندہ کرنا یا کرانا (اور اس کے لیے سفیر کا تقرر کرنا )شرعاً درست نہیں ۔ چندہ کی جائز صورت یہ ہے کہ اوقاتِ کارکردگی کی تعیین کے ساتھ ماہانہ تنخواہ پر سفیرکا تقرر کیا جائے اور سفیر کو چاہیے کہ محنت اور دیانت داری کے ساتھ مفوضہ ذمہ داری انجام دینے کی کوشش واہتمام کرے۔
وشرطھا کون الأجرة والمفعة معلومتین لأن جھالتھما تفضي إلی المنازعة (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الإجارة، ۹:۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضی العقد…کجھالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل (المصدر السابق، ص ۶۴)، ولو دفع غزلا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أي: بنصف الغزل أو استأجر بغلا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورا لیطحن برہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکل؛ لأنہ استأجرہ بجزء من عملہ والأصل في ذلک نھیہ صلی اللہ علیہ وسلم عن قفیز الطحان (المصدر السابق، ص ۷۸، ۷۹)۔
(۳): اگر کوئی سفیر تنخواہ کے طور پر کوئی متعینہ رقم طے کرتا ہے اور ذمہ داران مدرسہ کی نظر میں حسب مصالح مدرسہ مناسب رقم ہوتی ہے اور اس سے کمیشن وغیرہ کا معاملہ نہیں ہوتا تو اس میں کچھ حرج نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند