عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 164094
جواب نمبر: 16409401-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1270-1155/B=1/1440
مسجد اللہ کا مقدس گھر ہے اور عبادت کی جگہ ہے ، اس کا احترام کرنا ہمارے لئے ضرور ی ہے۔ یہاں اپنی ذات خاص کے لئے بھیک مانگنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ رفاہ عام کے کام کے لئے جیسے مسجد اور مدرسہ کے لئے چندہ مانگ سکتے ہیں۔ اگر کوئی نمازیوں کے آگے سے نہ گذرے نہ لوگوں کی گردنیں پھاندے تو اپنے لئے بھی مسجد میں سوال کرسکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
دو
سال قبل میں نے ایک زمین خریدی تھی اس کا دعوی دار پیدا ہوگیا۔ اب وہ کیس کورٹ میں
ہے۔ زکوة کے لیے اس زمین پر کیا حکم ہے، جب کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس کا فیصلہ
میرے حق میں ہوگا یا نہیں؟
میرا
سوال ایک پلاٹ کی زکوة سے متعلق ہے۔ چند سالوں پہلے مجھ کو اپنا مکان تعمیر کرنا
پڑا اور میرے پاس مثلاً سو لاکھ روپئے تھے۔ میں نے ابتدائی تعمیر کے لیے پچاس لاکھ
روپئے محفوظ رکھے، اور تیس لاکھ اور بیس لاکھ کے مزید دو پلاٹ خریدے۔ اس وقت ان دو
پلاٹوں کے متعلق میری نیت حسب ذیل تھی: (۱)میں بڑے پلاٹ کو اپنے بچوں کے لیے
محفوظ رکھوں گا اور اس کو فروخت نہیں کروں گا۔ (۲)اور میں چھوٹے پلاٹ نمبر
دو کوچند مہینوں میں اپنے مکان کے تعمیراتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فروخت
کردوں گا ۔اس پیسہ کو بینک میں رکھنے کے بجائے میں نے پلاٹ نمبر دو اس لیے خریدا
کہ اگلے چند مہینوں میں پلاٹ نمبر دو اچھی قیمت پر فروخت ہوجائے گااور مجھ کو اس
پیسہ پر کچھ حلال منافع حاصل ہوجائے گا۔تاہم بعد میں ایسا ہوا کہ جب مجھ کواپنے
مکان کی تعمیر کو مکمل کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوئی تو میں نے پلاٹ نمبر دو کو
فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن ....