• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 162880

    عنوان: فیکٹری میں جو مشینیں وغیرہ ہیں ان میں زکات ہے یا نہیں؟

    سوال: احقر کو یہ معلوم کرنا ہے کہ احقر تین سال پہلے ایک دم بے روزگار تھا کہیں سے قرضہ بھی نہیں ملتا تھا مگر کام کی تلاش رہتی تھی اسی تلاش میں احقر کو ایک پلاسٹک کی فیکٹری خریدنے کا آفر آیا احقر کے پاس ایک روپیہ نہیں تھا مگر احقر کے ایک تعلق والے نے فیکٹری دیکھ کر احقر کو ایک لاکھ روپیہ بیعانے کے دئے، احقر نے وہ بیعانہ اس میں ڈال دیا اور پھر احقر کو ایک بینک کا دلال ملا اس نے احقر سے کہا کہ ٹھیک ہے ہم بینک سے خریدوا دیں گے، بینک نے وہ فیکٹری مجھے ۴۵/ لاکھ کی خریدوا دی۔ اس کے بعد لوگوں سے تھوڑا بہت قرضہ لے کر فیکٹر چلانے کی کوشش ہونے لگی، اس کے بعد اللہ کی شان نوٹ بندی ہو گئی ا س میں احقر کو جاننے والوں نے ایک کروڑ سے زیادہ کے نوٹ دئے کہ دو سال میں واپس کر دینا۔ اس کو احقر نے فیکٹر میں لگا دیا۔ اب فیکٹر پر قرضہ ایک کروڑ ۴۵/ لاکھ ہو گیا مگر اللہ کی شان ۴۵/ لاکھ کا قرضہ لوگوں کو احقر نے دیدیا۔ اب بینک اور لوگوں کا ملا کر ایک کروڑ کا بچا ہے، اب ان لوگوں کا بہت دباوٴ ہے کہ پیسہ واپس کیا جائے جب کہ وہ نوٹ ان لوگوں نے دئے تھے جو چلن سے باہر ہو گئے تھے، بند ہو گئے تھے، مگر احقر نے ان لوگوں سے کہا ہے کہ ان شاء اللہ ایک یا دو مہینے میں دے دوں گا، اب اس کے لئے مجھے لون لینا پڑے گا۔ اب آپ بتائیں کہ میں کیا کروں؟ اگر ان لوگوں کا پیسہ نہیں واپس کرتا ہوں وقت پر تو بہت بات خراب ہوتی ہے، اور لون لیتا ہوں مجبوری میں تو کیا حکم ہے؟ اور احقر کی فیکٹری کی قیمت اس وقت اللہ کے احسان سے قرضے سے ۵۰/ لاکھ زیادہ کی ہے۔ احقر کے اوپر زکات کا کیا حکم ہے؟ یہ بھی بتادیں۔ اور احقر نے اِدھر کئی دنوں سے فیکٹری بیچنے کی بہت کوشش کی کہ کسی طرح سے سب کا قرضہ ختم ہو جائے، بینک کا ختم ہو جائے، مگر وہ نہیں بکی۔ احقر بینک سے لون اس نیت سے لے سکتا ہے کہ جلد از جلد اس کو ختم کرنے میں لگ جائے، جتنی جلد اس کو ختم کر لے گا پھر کوئی آگے کام کرے گا۔ آپ تسلی بخش جواب دیں۔ جزاک اللہ خیر

    جواب نمبر: 162880

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1115-279T/SN=1/1440

    (الف) سودی لین دین پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں، سود کی حرمت شدیدہ کا علم ہوتے ہوئے بھی ”سودی لین دین“ کرنے والوں کے ساتھ قرآن کریم میں اللہ اور ا س کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من اللہ ورسولہ (البقرة: ۲۷۹) اس لئے علماء نے فرمایا کہ شدید ضرروت کے بغیر سود پر قرض (لون) لینا شرعاً جائز نہیں ؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر آپ کی ملیکت میں کچھ سونا، چاندی یا اراضی وغیرہ ہے تو اسے فروخت کرکے یا کسی اور مباح تدبیر سے رقم حاصل کرکے لوگوں کا قرض رفتہ رفتہ ادا کردیں، لون نہ لیں؛ باقی اگر کوئی سبیل نہ بن سکے اور قرضخواہ لوگ مہلت کے لئے بھی راضی نہ ہوں تو بہ صورت شدید مجبوری آپ کے لئے لون لینے کی گنجائش ہوگی۔ ولی القنیة والبغیة: یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح (الأشباہ والنظائر: ۱/۷۹، فی نہایة القاعدة الخامسة)

    (ب) فیکٹری میں جو مشینیں وغیرہ ہیں ان میں توزکات نہیں ہے؛ البتہ آپ کے پاس جو کچھ نقد سرمایہ، سونا، چاندی، خام یا تیار مال ہے، اسی طرح لوگوں کے ذمے جو بقایاجات ہیں ان سب کی مجموعی مالیت اگر قرض منہا کرنے کے بعد قدرِ نصاب کو پہنچ رہی ہو تو صورت مسئولہ میں شرعاً آپ پر زکات واجب ہے؛ البتہ واجب الوصول دیون (بقایاجات) کی زکات کی ادائیگی اس وقت واجب نہیں ہے، جب یہ وصول ہو جائیں اس وقت واجب ہوگی یعنی اس وقت سالہائے گذشہ کی بھی زکات ادا کرنی ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند