• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 161823

    عنوان: مکتب کومدرسہ میں تبدیل کرنے کے ارادہ پر زکوة وغیرہ وصول کرنے کا حکم

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں ایک گاؤں میں ایک مکتب ہے جہاں کچھ لوگ دینی خدمات انجام دے رہے ہیں مگر اب مدرسہ چلانے کا ارادہ ہے تو اس جگہ مدرسہ کیلئے زکوٰة دے سکتے ہیں؟ جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 161823

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:991-851/N=9/1439

    جب مکتب، باقاعدہ مدرسہ میں تبدیل ہوجائے اور مدرسہ میں غریب ونادار بیرونی طلبہ آجائیں ، جن کا قیام وطعام منجانب مدرسہ ہو تو ذمہ داران مدرسہ مستحق زکوة طلبہ کے لیے زکوة، فطرہ اور دیگر صدقات واجبہ وصول کریں، دار الاقامہ کا نظام شروع ہونے سے پہلے زکوة، فطرہ وغیرہ وصول کرنے کی ضرورت نہیں۔

    قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورة التوبة: ۶۰)، ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ،……ولا إلی بنی ھاشم الخ۲ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵-۲۹۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، یصرف المزکي إلی کلھم أو إلی بعضھم،…… ویشترط أن یکون الصرف تملیکا، …،لا یصرف إلی بناء نحو مسجد (المصدر السابق،، ص:۲۹۱)، قولہ:”نحو مسجد“:کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکري الأنھار والحج والجھاد وکل ما لا تملیک فیہ۔ زیلعي (رد المحتار)، ومثلہ في مجمع الأنھر (کتاب الزکاة، ۱:۳۲۷،۳۲۸، ط:دار الکتب العلمیة، بیروت)، حیث قال:ولاتدفع الزکوة لبناء مسجد؛لأن التملیک شرط فیھا ولم یوجد، وکذا بناء القناطیر وإصلاح الطرقات وکري الأنھار والحج وکل ما لا تملیک فیہ اھ ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند