• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 161432

    عنوان: بیچنے كی نیت سے خریدے گئے پلاٹ پر زكاۃ ہے یا نہیں؟

    سوال: امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے ۔ مجھے اپنی زکواة کے حساب کتاب کے لیے آپ کی تھوڑی راہنمائی کی ضرورت ہے ۔ برائے مہربانی میری مدد کریں۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ عرصہ تقریبا 30سال سے کرایہ کے گھر میں رہتا ہوں۔ شادی شدہ ہوں اور 2 چھوٹے بچے ہیں۔ میرے پاس قسطوں والی ایک گاڑی تھی جو کہ میں نے جولائی 2017 میں 450000روپے میں فروخت کر دی۔ اور نومبر2017 میں کچھ پیسے اور ڈال کر اقساط کی شکل میں درج ذیل تفصیل کے مطابق ایک پلاٹ کی فائل خرید لی۔ پلاٹ فائل فروخت کرنے والے کو منافع دیا 485000 پلاٹ فائل کی ڈاؤن پیمنٹ ادا کی 200000 پلاٹ کی قسط ادا کی 150000 ٹرانفسر اخراجات 81000 اس طرح مجھے پلاٹ کی کل قیمت 916000روپے ادا کرنا پڑی جبکہ آج کی تاریخ تک میں نے پلاٹ کی 2 مزید اقساط جمع کروا دی ہیں۔ جو کہ 300000 روپے بنتی ہیں۔ یعنی کہ میں نے اب تک 1216000روپے جمع کروا دیے ہیں۔ میرے پاس تقریبا ساڑھے 7تولہ سونا بھی موجود ہے جو کہ میں نے اپنی بیوی کو شادی پر دیا تھا۔ جس کی مالیت تقریبا 350000روپے بنتی ہے ۔ میں نے اپنے باس سے اپنی تنخواہ کے بقایا جات کی مد میں 350000روپے لینے ہیں۔ جبکہ آج کی تاریخ تک میرے پاس گھر پر بھی تقریبا 80000روپے پڑے ہوئے ہیں۔ برائے مہربانی مجھے بتا دیں کے میری زکواة کتنی بنتی ہے ۔ جبکہ میرے کچھ سوالات بھی ہیں؟ میں نے اپنی جو ذاتی گاڑی جو کہ جولائی 2017 میں بیچی تھی کیا اس کے پیسے نصاب میں شامل کیے جائیں گے ؟ پلاٹ کی کل قیمت کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ کیا اس میں فروخت کنندہ کو ادا کی گئی منافع کی رقم جسے اون بھی کہتے ہیں جو کہ 485000روپے تھی، شامل کی جائے گی؟ کیا پلاٹ کی موجودہ قیمت نصاب میں شامل کی جائے گی کیوں کہ پلاٹ اکتوبر،نومبر2017 میں خریدا گیا ہے اور ابھی ایک سال مکمل نہ ہوا ہے اور باقی پیسے بھی اقساط کی شکل میں ادا کرنے ہیں اور پلاٹ کا قبضہ تقریبا نومبر2021میں دیا جائے گا۔ میں نے پلاٹ فروخت کرنے کی نیت سے خریدا تھا کہ جب اقساط مکمل ہو جائیں اور پلاٹ کی ویلیو بڑھ جائے تو اسے بیچ کر منافع حاصل کر سکوں۔ لیکن ساتھ ہی میری نیت یہ بھی تھی کہ جو بھی پیسے ملیں گے ان سے اپنا گھر خریدوں کا۔ جب میں نے پلاٹ خریدا تو میرے پاس صرف 300000روپے تھے جن کو میرے پاس ایک سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ کیا مجھے صرف ان 3 لاکھ روپے اور ساڑھے سات تولہ سونا پر زکواة اکرنا ہو کی کیونکہ کو ان دونوں کی میرے پاس موجودگی پر ایک سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے ؟ جبکہ باقی پیسے میں نے گاڑی بیج کر اور کمپنی کے پاس پڑی اپنی تنخواہ میں سے حاصل کر کے ادا کیے جن کو میرے پاس ایک سال کا عرصہ نہ گذرا تھا۔ کیا وہ رقم جو کہ میری تنخواہ کی مد میں کمپنی کے پاس ابھی بھی باقی پڑی ہے اس کو بھی نصاب میں شامل کیا جائے گا؟ برائے مہربانی میری راہنمائی کریں۔ شکریہ

    جواب نمبر: 161432

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1011-103T/M=12/1439

    صورت مسئولہ میں آب نے مذکورہ پلاٹ بیچنے کی نیت سے خریدا ہے چاہے بیچ کر اس پیسے سے گھر خریدنے کا ارادہ ہے، اس لیے اس پلاٹ کی مالیت پر زکاة تو آئے گی لیکن ابھی چونکہ پلاٹ آپ کے قبضے میں نہیں آیا ہے اس لیے زکاة کی ادائیگی ابھی آپ پر واجب نہیں، جب پلاٹ آپ کے قبضہ میں آجائے گا تب ادائیگی لازم ہوگی اور اُس وقت راجح قول کے مطابق گذشتہ سالوں کی زکاة بھی حساب لگاکر نکال دیں، وأما بعدہ (أي بعد القبض) فیزکیہ عما مضی (شامی زکریا: ۳/۱۸۰) اور شادی کے وقت بیوی کو سونے چاندی کے جو زیورات دیئے تھے اگر بطور عاریت دیئے تھے تو وہ آپ کی ملکیت ہے اور اس کی زکاة آپ کے ذمہ ہے، اسی طرح اسی ہزار روپئے جو آپ کے پاس گھر پر پڑے ہوئے ہیں اگر وہ حاجت اصلیہ سے زائد اور دین سے فارغ ہیں تو ان کی بھی زکاة واجب ہے، نیز گاڑی بیچ کر جو رقم حاصل ہوئی زکاة نکالتے وقت اس کو بھی شامل کرکے سب کی زکاة نکالیں گے۔ پلاٹ کی جب زکاة نکالیں گے تو اس میں موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا، تنخواہ کی مد میں کمپنی کے پاس جو رقم پڑی ہے اس سے مراد اگر پی ایف والی رقم ہے جو تنخواہ سے جبراً ہرماہ کاٹ لی جاتی ہے تو اس فنڈ والی رقم کی زکاة ابھی جب کہ ملازمت جاری ہے واجب نہیں، جب ملازمت ختم ہوجائے گی اور رقم مل جائے گی اس وقت سے زکاة کا حساب شرائط کے مطابق ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند