• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 159096

    عنوان: بچوں كے نام جمع كیے ہوئے مال پر زكات كا كیا حكم ہے؟

    سوال: لندن میں ایک اسلامی بچوں کا فنڈ ہے جس میں حکومت اور بچوں کے والدین پیسے جمع کرتے ہیں۔ جب بچہ ۱۸/ سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس پیسے کو نکال کر استعمال کرسکتا ہے، اس بچے کے علاوہ کوئی بھی اس کو استعمال نہیں کرسکتا۔ اگر بچہ ۱۸/ سال سے پہلے انتقال کر جائے تو پھر یہ پیسے اس کے والدین کو مل جاتے ہیں۔ اس مال پر زکات کا کیا حکم ہوگا؟ والدین کو اس عرصہ کے درمیان زکات ادا کرتے رہنا ہوگا یا نہیں؟ واضح رہے کہ والدین اس پیسے کو استعمال نہیں کرسکتے صرف بچہ ہی استعمال کرسکتا ہے جب کہ وہ ۱۸/ سال کا ہو جائے۔ ہاں! اگر ۱۸/ سال سے قبل اس کا انتقال ہوجائے تو پھر استعمال کرسکتے ہیں۔

    جواب نمبر: 159096

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:626-77T/sd=6/1439

    صورت مسئولہ میں اگر والدین اسلامی بچوں کے فنڈ میں بچوں کے نام سے رقم جمع کراکر ہبہ کردیتے ہیں ، یعنی: بچوں کو اس کے بارے میں بتا بھی دیتے ہیں،تو شرعا یہ رقم بچوں کی ملکیت سمجھی جائے گی ؛ لہذا بالغ ہونے سے پہلے اس رقم پر زکات واجب نہیں ہوگی ، نہ والدین پر اور نہ ہی بچوں پر ؛ البتہ بلوغ کے بعد بچہ پر حسبِ شرائط زکات واجب ہوگی۔ قال الحصکفی : (وہبة من لہ ولایة علی الطفل فی الجملة) وہو کل من یعولہ فدخل الأخ والعم عند عدم الأب لو فی عیالہم (تتم بالعقد) لو الموہوب معلوما۔قال ابن عابدین : (قولہ: بالعقد) أی الإیجاب فقط کما یشیر إلیہ الشارح کذا فی الہامش، وہذا إذا أعلمہ أو أشہد علیہ، والإشہاد للتحرز عن الجحود بعد موتہ والإعلام لازم لأنہ بمنزلة القبض بزازیة، قال فی التتارخانیة: فلو أرسل العبد فی حاجة أو کان آبقا فی دار الإسلام فوہبہ من ابنہ صحت فلو لم یرجع العبد حتی مات الأب لا یصیر میراثا عن الأب اہ.۔۔۔(قولہ: معلوما) قال محمد - رحمہ اللہ -: کل شیء وہبہ لابنہ الصغیر، وأشہد علیہ، وذلک الشیء معلوم فی نفسہ فہو جائز، والقصد أن یعلم ما وہبہ لہ، والإشہاد لیس بشرط لازم لأن الہبة تتم بالإعلام تتارخانیة۔ ( الدر المختار مع رد المحتار :۶۹۵/۵، کتاب الہبة ، ط: دار الفکر، بیروت ) 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند