• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 153414

    عنوان: مدارس کے سفیر کو جو کمیشن دیا جاتا ہے وہ جائز ہے یا ناجائز؟

    سوال: سوال: محترم مفتی صاحب! درج ذیل مسائل میں شرعی رہبری فرمائیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔ 1۔ مدارس کے سفیر کو جو کمیشن دیا جاتا ہے وہ جائز ہے یا ناجائز؟ 2۔ مال زکوة کی ادائیگی کب تام ہوگی۔ رقم مدرسہ کے مہتمم صاحب تک پہونچ جانے پر یا کسی اور تک پہونچنے پر؟ اس سے قبل زکوة کی رقم سے سفیروں کا اس پیسے میں سے کمیشن کے نام پر خرد برد کرنا کیسا ہے ؟ 3۔ تعمیری کاموں میں مد زکوة کا استعمال کیسا ہے ؟ 4۔ مدارس کے طلبا کی غلط تعداد بتاکر چندہ کرنا تاکہ زیادہ لوگ پیسے دیں، کیسا ہے ؟ 5۔ گورنمنٹ ایڈ والے بعض مدرسے بھی تصدیق نامے لے آتے ہیں۔ ان کو چندہ دینا اور ایسے مدرسے کے لئے چندہ کرنا کیسا ہے ؟ 6۔ فارسی عربی کی صلاحیت کے بغیر منشی کامل ادیب وغیرہ کے جعلی سرٹیفیکیٹ بنواکر سرکاری نوکری کرنا اور تنخواہ لینا کیسا ہے ؟ 7۔ اگر کسی کا تقرر ایک مضمون پڑھانے کے لئے ہوا ہو اور وہ دوسرا مضمون پڑھائے تو ایسا کرنا اور اس پر تنخواہ لینا سرکاری اداروں میں کیسا ہے ؟

    جواب نمبر: 153414

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1098-936/D=11/1438

    (۱) کمیشن پر چندہ کرنا اور کرانا ناجائز ہے، لہٰذا مدارس کے سفیر کو جو کمیشن دیا جاتا ہے وہ بھی ناجائز ہے۔ (من یریدا لتفصیل حولہ فلیراجع إلی ”چند اہم عصری مسائل“)

    (۲) زکاة کی رقم مدرسہ کے مہتمم تک پہنچ جائے تو زکاة کی ادائیگی کا حکم لگاسکتے ہیں، البتہ مہتمم کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ زکاة دینے والے کی منشاء کے مطابق ہی زکاة کو اس کے مصارف میں خرچ کرے۔ المشقة تجلب التیسیر (الأشباہ والنظائر) مہتمم صاحب تک زکاة کی رقم پہنچانے سے پہلے سفیر کے لیے کسی بھی قسم کا تصرف کرنا ناجائز ہے۔

    (۳) تعمیری کاموں میں زکاة کا مال نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ ولا یجوز أن یبنیٰ بالزکاة المسجد وکذا القناطیر والسقایات (الہندیة: ۱/ ۲۵۰)

    (۴) مدراس کے طلبہ کی غلط تعداد بتاکر چندہ کرنا جھوٹ اور دھوکہ ہے، اس لیے اس طرح چندہ کرنا ناجائز ہے۔ من غش فلیس منا (الحدیث)

    (۵) گورنمنٹ اور ایڈ والے مدرسوں میں اگر نادار طلبہ علم دین حاصل کررہے ہیں اور ان کے اخراجات مدرسہ برداشت کررہا ہے، تو ایسے مدرسوں کو چندہ دینا درست ہے، لیکن اچھی طرح تحقیق کے بعد ہی چندہ دینا چاہیے۔ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ (الآیة)

    (۶) جعلی سرٹیفکٹ بنوانا، اور اس کے ذریعہ نوکری حاصل کرنا، جھوٹ اور دھوکہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، ہاں نوکری ملنے کے بعد اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا ہے، جب کہ وہ اپنی ذمہ داری کو پورے طور پر انجام دے، اس میں کسی قسم کا نقص اور کمی نہ رہے۔

    (۷) وہ شخص جو دوسرا مضمون پڑھا رہا ہے، وہ کس وجہ سے ایسا کررہا ہے، اپنی نااہلیت کی وجہ سے یا مدرسہ اور طلبہ کی ضرورت کی وجہ سے؟


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند