• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 152730

    عنوان: ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی پہ زکوات ہے تو دونوں کی قیمت جوڑ کر اگر کسی ایک کی بھی قیمت کو پہنچ جاتی ہے تو زکواة کیوں ہے ؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں ضروریات زندگی کے سامان پہ زکواة نہیں ہے تو پھر عورتوں کے زیورات پہ زکواة کیوں ہے ؟ ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی پہ زکوات ہے تو دونوں کی قیمت جوڑ کر اگر کسی ایک کی بھی قیمت کو پہنچ جاتی ہے تو زکواة کیوں ہے ؟ جب کہ جانوروں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے ، اور آج سونے چاندی کی قیمت میں بہت زیادہ کا فرق ہے ، اس کے باوجود بھی قیمت ملا کر زکواة کیوں نکلوائی جاتی ہے ؟ اگر کسی کے پاس صرف ڈیڑھ لاکھ روپیہ ہے تو وہ زکواة دے گا یا نہیں ؟کیونکہ سونے کی قیمت کے حساب سے وہ مالک نصاب نہیں ہے لیکن چاندی کی قیمت کے حساب سے وہ مالک نصاب ہے ۔ بینوا تو اجروا

    جواب نمبر: 152730

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1102-1201/B=11/1438

    فقراء کی منفعت کا خیال رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے اصل نصاب 52.5 تولہ یعنی 612 گرام 360 ملی گرام کو بنایا ہے، کسی کے پاس تھوڑا سا سونا اور تھوڑی سی چاندی ہے لیکن دونوں کی قیمت 52.5 تولہ کی مالیت کے برابر ہوجاتی ہے تو اس کو صاحب نصاب گردانا گیا ہے اور اس کے اوپر زکاة واجب ہوگی، یہ محض فقراء کو فائدہ پہنچانے کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند