• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 151986

    عنوان: اس مال كی زکات کس کے ذمہ ہے؟ والد صاحب پر یا بیٹی پر؟

    سوال: حضرت مفتی صاحب! والد صاحب نے اپنی بیٹی کے کھاتے میں Rs.4,00,000/- ڈال کر کہا کہ اِن پیسوں کو تجارت میں ڈالو، اُن پیسوں پر جو نفع آئے گا وہ جب Rs.4,00,000/- تک پہنچ جائے گا تب واپس دے دینا۔ آگے کا نفع بیٹی کا ہوگا، تو اب بیٹی نے پیسوں کو اپنے نام پر تجارت میں ڈال دیا۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ نفع Rs.4,00,000/- تک پہنچے اس کے لیے کئی سال لگیں گے، تب تک تجارت کے Rs.4,00,000/- اور ہونے والے ماہانہ منافع، اس کی زکات کس کے ذمہ ہے؟ والد صاحب پر یا بیٹی پر؟ اور کیوں؟

    جواب نمبر: 151986

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1288-1252/L=10/1438

    اصل چار لاکھ کی رقم کے مالک والد صاحب ہیں؛لہذا اس کی زکوة والد صاحب پر واجب ہوگی،اگرلڑکی والد صاحب کے لیے تجارت کرتی ہے تو منافع کی زکوة بھی والد صاحب پر ہوگی ورنہ منافع کی زکوة کی ادائیگی حسب وجوب زکوة لڑکی کے ذمہ ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند