عنوان: اگر مقروض ہونے كے باوجود صاحب نصاب ہے تو كیا زكاۃ دینی ہوگی؟
سوال: اگر کوئی شخص مقروض ہو اور قرض ادا کرنے کی شرط یہ ہے کہ چار ہزار ریال قرض لیا اور پھر اسے ماہانہ سو روپیہ ریال ادا کرنا ہے، اب یہ سو ریال ادا کرکے بھی قرض دار جو ہے پیسوں کی بچت کرسکتا ہے، اس کی تنخواہ اچھی ہے، تو کیا وہ زکات ادا کر سکتا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت کی میرے دل کے اندر کینہ اور بغض ہے ایک شخص کے خلاف جو کہ باشرع بھی ہے اور دین دار بھی نیز جماعت میں بھی جڑتا ہے اور ہماری مسجد کا مسجد وار ساتھی ہے لیکن میری بدقسمتی کہ اس کے معاملات کے احوال لوگوں نے مجھے آکر بتایا کہ بے تحاشہ لوگوں کو دھوکہ دیا ہوا ہے اور جھوٹ بول کر کہ پیسے میرے ہیں لوگوں کے جن سے میں کچھ ملا ہوں اور لین دین میں جھوٹ کثرت سے بولتا ہے ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لیے میرے دل میں بہت زیادہ کینہ اور بغض بھر گیا ہے، دل چاہتا ہے کہ اس کو اتنا سناوٴں کہ بس، پھر دل کہتا ہے کہ چھوڑو دفعہ کرو وہ جانے اور اللہ، لیکن اس پر دل آمادہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ شخص ہر وقت سیاست بازی کرتا ہے۔ مہربانی کر کے مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتائیں کہ جس سے میرا دل صاف ہو جائے اور میرے دل میں یہ خیالات نہ آئیں۔ اسی وجہ سے میری صحت خراب رہنے لگی ہے۔ کہیں اور گھر کا انتظام مشکل ہے ورنہ کہیں اور چلا جاتا۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری کمپنی ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہو رہی ہے جہاں پر میں جانا نہیں چاہتا کیونکہ وہاں زیادہ تر عربی لوگ ہیں، وہاں دین کا کام اتنا نہیں ہے، اور یہاں پر بہت اچھا کام ہے۔
براہ کرم! کوئی ایسا وظیفہ بتائیں کہ جس سے وہاں جانا نہ پڑے اور یہیں پر کوئی اچھا انتظام ہو جائے۔
جواب نمبر: 15184601-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1156-1132/N=11/1438
(۱): اگر سوال میں مذکور شخص مقروض ہونے كے باوجود صاحب نصاب ہے تو حسب ضابطہ وشرائط اس پر زکوة وجب ہوگی ورنہ نہیں۔
(۲): آپ سورہ حشر کی آیت نمبر: ۱۰، یعنی: رَبَّنَا اغْفَرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوْا رَبَّنَا إِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ کا بہ کثرت ورد کیا کریں، انشاء اللہ آپ کی یہ بیماری وپریشانی ختم ہوجائے گی۔
(۳):روزانہ دو رکعت صلوة الحاجت پڑھ کر اللہ تعالی سے دعا کریں، میں بھی دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کے لیے خیر کا فیصلہ فرمائیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند