عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 151303
جواب نمبر: 15130301-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 922-838/B=8/1438
مدرسہ کے لیے چندہ کرنا ایک قسم کا اجارہ ہے اور اجارہ میں پہلے سے اجرت کا متعین ہونا ضروری ہے ورنہ اجارہ فاسد ہوجاتا ہے فی صد اجرت دینے میں اجرت متعین نہیں ہوتی کیونکہ چندہ کرنے والوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ میں کس قدر رقم وصول کروں گا۔ جب اصل رقم متعین طور پر معلوم نہیں تو اس پر فیصد بھی متعین کرنا ممکن نہیں۔ مدرس کی تنخواہ رمضان میں ڈبل کردیں۔ یا روزانہ ماہانہ اجرت متعین کردیں تو یہ صحیح صورت رہے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میں
یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ ہم جو کام کرتے ہیں اس کی رقم جس سے کام لاتے ہیں اس پر ہے۔
لیکن اب ان سے کام بند ہوچکا ہے باقی ہماری رقم ان پر ہی ہے۔ وہ رقم نہیں دیتے،
دیتے ہیں تو پانچ سو یا ایک ہزارروپئے دے دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس رقم کی زکوة
دیں گے جو ابھی انھیں پر ہے؟ (۲)جو
رقم بینک میں ہے سود سمیت اس کی بھی زکوة دیں گے؟ اگر ہم اس رقم کا جہیز کے لیے
زیور وغیرہ خرید لیں تو کیااس زیور پر بھی زکوة دیں گے؟ (۳)ہماری ایک پرچون کی دکان
ہے کیا اس کے سامان پر بھی زکوة دیں گے یا جو رقم صبح سے شام تک اکٹھا ہوتی ہے اس
پر بھی زکوة دیں گے؟ (۴)زکوة
کس کو دیں، کیوں کہ گھر پر بھی مانگنے والے آتے جن کا ہمیں پتہ نہیں کہ یہ ہندو
ہیں یا مسلمان؟ کیا جہیز کے لیے جو سامان ہے اس پر بھی زکوة دینا واجب ہے؟