• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 150675

    عنوان: پہلی بیوی کے بچوں پر زکات خرچ کرنا؟

    سوال: ایک عورت جس کو پانچ سال قبل طلاق ہوئی اس وقت اس عورت کے دو بچے تھے ایک کی عمر 4 ماہ اور دوسرے کی عمر 1 سال تھی۔اور شوہر بھی صاحب نصاب تھا۔ 5 سال بعد اسی عورت کی دوسری جگہ شادی ہو گئی ۔اس عرصے میں پہلے شوہر نے نہ بچوں کو خرچہ دیا جو طلاق کے وقت طے کیا تھا نہ ہی کبھی ملنے کی کوشش کی۔بلکہ اب تو یہ بھی معلوم نہیں کہ پہلا شوہر زندہ بھی ہے یا نہیں۔بچوں کی حالت یتیموں جیسی ہی ہے ، سوال یہ ہے کہ دوسرا شوہر جو اس وقت ان دو بچوں کی کفالت کر رہا ہے وہ ان پر زکات کی رقم خرچ کر سکتا ہے ؟ اگر کر سکتا ہے تو کیا تملیک ضروری ہے یا بلا تملیک بھی خرچ کر سکتا ہے ؟ تملیک بچوں سے کروائے گا؟

    جواب نمبر: 150675

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1053-1087/L=8/1438

    صورت مسئولہ میں اگر ان کے والد کا پتہ لگانا ممکن نہیں کہ وہ حیات ہیں تو اس عورت کا دوسرا شوہر زکاة کی رقم کو ان بچوں کو دے سکتا ہے؛ البتہ اس شخص پر زکاة کی رقم کا ان بچوں کو مالک بنانا ضروری ہوگا۔ مالک بنانے کے بعد پھر اس رقم کو ان کی ضروریات میں خرچ کرنا جائز ہوگا اور ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ ان کو بقدر ضرورت مال دیا جائے تاکہ حفاظت کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔

    اور اگر ان کے والد حیات ہیں اور وہ مالدار بھی ہیں تو بچوں کو زکاة کی رقم دینا جائز نہ ہوگا، ایسی صورت میں نفل صدقہ اور عطیہ کی رقم سے بچوں کا تعاون کیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند