عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 148382
جواب نمبر: 148382
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 363-468/N=6/1438
(۱):جی ہاں! بھیج سکتے ہیں بہ شرطیکہ آپ کو اس بات کا اعتماد وبھروسہ ہو کہ آپ جن لوگوں کے پاس زکوة کی رقمیں بھیج رہے ہیں، وہ زکوة کے اصول کے مطابق شرعی طریقہ پر صرف مستحقین زکوة ہی پر خرچ کریں گے، اور اگر اس کا اطمینان ہو یا واسطوں کی کثرت کی وجہ سے اطمینان حاصل کرنا مشکل ہو تو آپ زیادہ سے زیادہ امداد وعطیہ کی رقومات بھیجیں، اس میں بہ قدر استطاعت وحیثیت کوتاہی نہ کریں۔
(۲، ۳):صرف معلوم کرنا یا شرطیں لگانا کافی نہیں، معتمد ذرائع سے صحیح صورت حال کا معلوم ہونا ضروری ہے اور وہ غالباً مشکل ہے؛ اس لیے امداد وعطیہ کی رقومات ہی بھیجنا مناسب ہے۔
(۴):اس کی بات صحیح ہے؛ لہٰذاعطیہ وامداد ہی رقمیں بھیجیں، کچھ عرصہ سے امت مسلمہ عطیہ وامداد میں پیچھے ہورہی ہے، ہر جگہ صرف زکوة خرچ کرنے کو سوچتی ہے، یہ مناسب نہیں، جہاں زکوة کا مصرف نہ ہو یا اطمینان نہ ہو، وہاں عطیہ وامداد کی رقمیں لگانی چاہیے۔
(۵): سید کو زکوة نہیں دے سکتے ؛ لہٰذا اگر کوئی جان بوجھ کر سید کو زکوة دے گا یا تحری (سوچے سمجھے) بغیر زکوة دیدی اور بعد میں معلوم ہوا کہ جس کو زکوة دی، وہ سید تھا تو اس کی زکوة ادا نہ ہوگی اور اگر کسی کو غور وفکر کے بعد غیر سید سمجھ کر زکوة دیدی اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ سید تھا تو زکوة ادا ہوگئی، پس زکوة کے باب میں احتیاط چاہیے،؛ لہٰذاآپ زیادہ سے زیادہ عطیہ وامداد کی رقمیں بھیجنے کی کوشش کریں، مناسب یہی ہے۔ وإن بان غناہ أو کونہ ذمیاً أو أنہ أبوہ أو ابنہ أو امرأتہ أو ھاشمي لا یعید؛ لأنہ أتی بما في وسعہ حتی لو دفع بلا تحر لم یجز إن أخطأ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۴:۳۰۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند