• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 146846

    عنوان: صحت مند کو زکات دینا؟

    سوال: غیر مقلدین فقہ حنفی کے اس مسئلے پہ اعتراض کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم زکاة کا مال تقسیم کر رہے تھے ، 2 آدمی آئے اور سوال کیا..آپنے انکو طاقتور پایا..اور فرمایا: اس میں غنی و طاقتور کما کرکھانے والے کا کوئی حصہ نہیں۔ (ابوداود1633)فقہ حنفی-->[یجوزدفعہاإلی من یملک اقل من ذلک وإن کان\'صحیحامکتسبا\']ایساشخص جو صاحب_نصاب نہ ہو اگرچہ تندرست و کسب کر نے کی طاقت رکھتاہو زکوة دیناجائزہے _{ہدایة:ج1ص224، کتاب الزکوة،باب مصارف الزکوة}۔ برائے مہربانی اسکا مدلل جواب دیں۔

    جواب نمبر: 146846

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 285-045/D=3/1438

     

    جوشخص شرعاً غریب ہو اور وہ سید نہ ہو تو اس کے لیے زکات لینا درست ہے اگر چہ وہ صحت مند ہو، مستحق زکات ہونے کے لیے کمزور یا بیمار ہونا ضروری نہیں ہے اور یہ بات آیت قرآنی اور احادیث نبوی سے ثابت ہے، قرآن کریم میں ہے إنما الصدقات للفقراء والمساکین الآیة (سورة توبہ، آیت: ۶۰) اس میں مطلقاً زکات کا حقدار فقراء ومساکین کو قرار دیا گیا، یہ نہیں کہا گیا کہ اگر کمزور یا بیمار فقیر یا مسکین ہو تو درست ہے ورنہ نہیں اور حدیث شریف میں ہے کہ:

    (۱) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت کچھ نصیحتیں کیں، ان میں ایک یہ ہے کہ فإن أطاعوا لذلک فأعلمہم أن اللہ افترض علیہم صدقة في أموالہم توخذ من أغنیاء ہم وترد علی فقراء ہم (بخاری شریف، رقم: ۱۳۹۵، مسلم شریف رقم: ۲۹) اگر اہل یمن تمہاری مذکورہ تمام باتیں مان لیں تو ان سے کہنا کہ ان کے مال میں اللہ تعالیٰ نے زکات فرض کیا ہے جو ان کے اغنیاء سے لے کر ان ہی میں کے فقراء کے دے دیا جائے گا، حضور علیہ السلام کا یہ ارشاد آخری عمر کا ہے جس میں مطلقاً فقراء کو زکات دینے کی بات کہی گئی، اس میں یہ نہیں ہے کہ کمزور یا فقراء میں تقسیم کردی جائے گی نہ کہ صحت مندوں کے درمیان۔

    (۲) حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور کے پاس کوئی کھانے کی چیز آتی تو دریافت فرماتے کہ یہ ہدیہ ہے یا صدقہ، اگر جواب آتا کہ یہ صدقہ ہے تو صحابہ کو فرماتے کہ تم لوگ کھالو اور اگر کہا جاتا کہ یہ ہدیہ ہے تو حضور علیہ السلام خود صحابہ کے ساتھ تناول فرماتے ، عن أبي ہریرة قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا أتی بطعام سأل عنہ أہدیة أم صدقة فإن قیل صدقة قال لأصحابہ کلوا ولم یأکل وإن قیل ہدیة ضرب بیدہ وأکل معہم (بخاری رقم: ۲۵۷۶) اور یہ یات ظاہر ہے کہ زیادہ تر صحابہ تندرست تھے پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو صدقہ کا کھانا کھانے کے لیے فرما رہے ہیں، معلوم ہوا کہ مستحق ہونے کے لیے غریب ہونا کافی ہے۔

    (۳) حضرت زیاد بن حارث صدائی روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے زکات کی درخواست کی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ زکات کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے نہ کسی نبی کا فیصلہ پسند فرمایا نہ اور کسی کا، بلکہ خود فیصلہ کرتے ہوئے آٹھ قسم کے لوگوں کے لیے زکات کو حلال قرار دیا (جس کو اللہ تعالیٰ نے إنما الصدقات للفقراء والمساکین الخ والی آیت میں بیان فرمایا) اگر تم ان آٹھ لوگوں میں سے ہو تو دوں گا (ابوداوٴد ، رقم: ۱۶۳۰) اس حدیث نے اور صاف کردیا کہ مستحق زکات ہونے کے لیے غریب ہونا کافی ہے، کمزور یا بیمار ہونا ضروری نہیں ان دلائل کے علاوہ اور بھی بہت سی دلیلیں ہیں یہاں بطور مثال چند دلائل پیش کردئیے گئے ہیں، رہی استفتاء میں مذکور حدیث تو اس سے مراد سوال حرام ہے یعنی جو شخص قوی مکتسب ہو اس کے لیے زکات و صدقات کا سوال کرنا اور مانگنا جائز نہیں ہے چنانچہ اسی نوعیت کی ایک دوسری حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے عن حبشی بن جنادة قال قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم إن المسئلة لاتحل لغنی ولا لذی مرة سوی إلا لذی فقر مدقع وعزم مفظع الحدیث (ترمذی، رقم: ۶۵۳)

    نوٹ: آپ ہدایہ علماء کی عدالت میں بجواب ہدایہ عوام کی عدالت میں موٴلفہ مولانا حبیب اللہ ڈیر ڈوی صاحب کا مطالعہ فرمائیں اس میں ہدایہ پر کئے گئے تمام اعتراضات کا جواب موجود ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند