• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 11297

    عنوان:

    مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسلامی فنڈ یا بیت المال بہت ساری جگہوں پر اسلامی اداروں کے ذریعہ سے چلائے جارہے ہیں بشمول دیوبند کے اور دوسری جگہوں کے جیسے نگینہ، علی گڈھ وغیرہ۔ جہاں پر لوگ معمولی کرایہ پر اچھی حفاظت کی خاطر سونے اور چاندی کے زیورات بطور امانت کے رکھ سکتے ہیں۔اور سونے کے زیورات پرقرض بھی دیا جاتا ہے اور ادھار لینے والے سے صرف ان کے سامان کی حفاظت اور سیکورٹی کی قیمت لی جاتی ہے۔ہمارے شہر کے کچھ ہم خیال لوگ اسی طرح کا ایک نظام شروع کرنا چاہتے ہیں (ان شاء اللہ) جس کے ذریعہ وہ غریب اور ضرورت مند مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ اس میں ان کوقیمتی اشیاء کے مقابلے میں قرض فراہم کریں گے اور وہ تحفظ کے طور پر صرف معمولی چارج وصول کریں گے جس سے ادارہ چلانے میں ہونے والے اخراجات کو پورا کیا جاسکے اور وہ کسی قسم کا کوئی منافع نہیں لیں گے۔ ہم اس ادارہ کو چلانے کے لیے لوگوں سے زکوة وصول کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس پروجیکٹ کی ایک مختصر رپورٹ بھی تیار کی ہے۔ جب میں نے اپنی جامع مسجد کے امام صاحب سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ حرام ہے۔برائے کرم اس معاملہ میں میری رہنمائی فرماویں۔ اگر ضرورت پڑی تو میں یہ رپورٹ دارالافتاء بھیج سکتا ہوں(برائے کرم مجھے طریقہ بتادیں کہ کیا میں اس کو انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بھیج سکتاہوں)؟

    سوال:

    مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسلامی فنڈ یا بیت المال بہت ساری جگہوں پر اسلامی اداروں کے ذریعہ سے چلائے جارہے ہیں بشمول دیوبند کے اور دوسری جگہوں کے جیسے نگینہ، علی گڈھ وغیرہ۔ جہاں پر لوگ معمولی کرایہ پر اچھی حفاظت کی خاطر سونے اور چاندی کے زیورات بطور امانت کے رکھ سکتے ہیں۔اور سونے کے زیورات پرقرض بھی دیا جاتا ہے اور ادھار لینے والے سے صرف ان کے سامان کی حفاظت اور سیکورٹی کی قیمت لی جاتی ہے۔ہمارے شہر کے کچھ ہم خیال لوگ اسی طرح کا ایک نظام شروع کرنا چاہتے ہیں (ان شاء اللہ) جس کے ذریعہ وہ غریب اور ضرورت مند مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ اس میں ان کوقیمتی اشیاء کے مقابلے میں قرض فراہم کریں گے اور وہ تحفظ کے طور پر صرف معمولی چارج وصول کریں گے جس سے ادارہ چلانے میں ہونے والے اخراجات کو پورا کیا جاسکے اور وہ کسی قسم کا کوئی منافع نہیں لیں گے۔ ہم اس ادارہ کو چلانے کے لیے لوگوں سے زکوة وصول کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس پروجیکٹ کی ایک مختصر رپورٹ بھی تیار کی ہے۔ جب میں نے اپنی جامع مسجد کے امام صاحب سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ حرام ہے۔برائے کرم اس معاملہ میں میری رہنمائی فرماویں۔ اگر ضرورت پڑی تو میں یہ رپورٹ دارالافتاء بھیج سکتا ہوں(برائے کرم مجھے طریقہ بتادیں کہ کیا میں اس کو انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بھیج سکتاہوں)؟

    جواب نمبر: 11297

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 490=451/ب

     

    ہمیں شریعت نے بیت المال قائم کرنے کا مکلف نہیں بنایا ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہ حکم صادر فرمایا کہ مالدار لوگ خود اپنے مال کا حساب کرکے پورے مال کی زکاة نکالیں، اورخود ہی غریبوں کو تلاش کرکے ان تک پہنچائیں۔ لہٰذا ہمیں بھی اسی پر عمل کرنا چاہیے، کوئی اسلامی فنڈ نہیں جس میں سود کا لین دین نہ ہو۔ کوئی بیت المال ایسا نہیں جہاں زکاة کی رقم صحیح مصرف میں خرچ کرتے ہوں۔ بلکہ سب کھاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ کے جامع مسجد کے امام صاحب نے جو مشورہ دیا وہ صحیح ہے۔ ہمارا مشورہ بھی یہی ہے کہ آپ ہرگز ایسا کوئی اقدام نہ کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند