عقائد و ایمانیات >> ادیان و مذاہب
سوال نمبر: 176585
جواب نمبر: 176585
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 598-110T/L=07/1441
صورت مسئولہ میں اگر ہوشیار طلبہ کو کسی فعال استاد کے زیر نگرانی دینے میں مدرسہ اور طلبہ کی مصلحت ہو تو مہتمم کے لئے ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں، اور یہ دیگر استاتذہ کے ساتھ ناانصافی نہیں؛ البتہ مہتمم کے لئے ایسا کرنا کہ سارے غبی طلبہ ایک مدرس کو دیدے یہ بھی مناسب نہیں، بہتر یہی ہے کہ مخلوط طلبہ ہرمدرس کو دیے جائیں اور مدرس کو اس کا پابند بنایا جائے کہ وہ طلبہ کو حتی الوسع بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں، اگر کوئی مدرس سستی کرتا ہو تو اچھے انداز سے اس کی تنبیہ کی جائے۔
عن تمیم الدارمي أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم، قال: ”الدین النصیحة“ قلنا: لمن؟ قال: ”للہ ولکتابہ ولرسولہ ولأئمة المسلمین وعامتہم“ رواہ مسلم (۹۵) وفي مجلة الأحکام: التصرف علی الرعیة منوط بالمصلحة ۔ (مجلة الأحکام ص: ۹۴) وفي شرح القواعد الفقہیة: التصرف علی الرعیة منوط بالمصلحة، أي: إن نفاذ تصرف الراعي علی الرعیة ولزومہ علیہم شاوٴوا أو أبوا معلق ومتوقف علی وجود الثمرة والمنفعة في ضمن تصرفہ، دینیة کانت أو دنیویة ۔ فإن تضمن منفعة ما وجب علیہم تنفیذہ، وإلا رد، لأن الراعي ناظر، وتصرفہ حینئذ متردد بین الضرر والعبث وکلاہما لیس من النظر في شيء ۔ والمراد بالراعي: کل من ولي أمرا من أمور العامة، عاما کان کالسلطان الأعظم، أو خاصا کمن دونہ من العمال، فإن نفاذ تصرفات کل منہم علی العامة مترتب علی وجود المنفعة في ضمنہا، لأنہ مأمور من قبل الشارع (صلی اللہ علیہ وسلم) أن یحوطہم بالنصح، ومتوعد من قبلہ علی ترک ذلک بأعظم وعید، ولفظ الحدیث أو معناہ: ”من ولي من أمور الأمة عملا فلم یحطہا بنصح لم یرح رائحة الجنة“ ۔ (شرح القواعد الفقہیة ص: ۳۰۹)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند