• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 68107

    عنوان: عورت کو حمل کی وجہ سے گھبراہٹ ہوتی ہے، کیا اسقاطِ حمل درست ہے؟

    سوال: اگر 15 یا 20 دن کے بعد اسقاط حمل کیا جائے دوائی وغیرہ کے ذریعہ صرف اس بنا پر کہ عورت کو حمل کی وجہ سے گھبرا ہٹ ہوتی ہے تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 68107

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 942-922/Sd=11/1437 اِسقاط حمل فی نفسہ ناجائز ہے، جہاں تک ممکن ہو اِس سے بچنا چاہئے، ہاں اگر کوئی سخت مجبوری پیش آجائے اور ماں کی جان کا شدید خطرہ ہو یا حمل کی وجہ سے اُس کی صحت کے زیادہ خراب ہونے کا اندیشہ ہو، تو فقہاء نے نفخ روح سے قبل تک یعنی ایک سو بیس دن کے اندر اندر اِسقاط کی اجازت دی ہے؛ لہذا صورت مسئولہ میں اگر عورت کو حمل کی وجہ سے صرف گھبراہٹ ہوتی ہے، تو محض اس کی وجہ سے اسقاط حمل کی اجازت نہیں ہے؛ ہاں اگر گھبراہٹ اس درجہ ہو کہ عورت کی صحت زیادہ خراب ہونے کا اندیشہ ہو، تو ایک سو بیس دن کے اندر اندر اسقاط حمل کی گنجائش ہے۔ قال ابن عابدین: بقي ہل یباح الاسقاط بعد الحمل؟ نعم یباح ما لم یتخلق منہ شيء، ولن یکون ذلک الا بعد مأة و عشرین یوما۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ونقل عن الذخیرة لو أرادت الالقاء قبل مضي زمن ینفخ فیہ الروح، ہل یباح لہا ذلک أم لا؟اختلفوا فیہ، وکان الفقیہ علي بن موسی یقول: انہ یکرہ، فان الماء بعد ما وقع في الرحم ماٰ لہ الحیاة، فیکون لہ حکم الحیاة، کما في بیضة صید الحرم، ونحوہ في الظہیریة۔ قال ابن وہبان: فاباحة الاسقاط محمولة علی حالة العذر، أو أنہا لا اتأثم اثم القتل۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب النکاح / مطلب في حکم إسقاط الحمل ۳/ ۱۷۶ دار الفکر بیروت، ۴/ ۳۳۵ زکریا) العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقہ کالشعر والظفر ونحوہما لا یجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز۔ (الفتاویٰ الہندیة، کتاب الکراہیة / الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ۵/ ۳۵۶ زکریا، ، وکذا في البحر الرائق، کتاب الکراہیة / فصل في البیع ۸/ ۳۷۶ زکریا) ------------------------------------ نوٹ: اس سلسلے میں کسی ماہر دین دار ڈاکٹر سے بھی مشورہ کرلیا جائے۔ (ل)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند