• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 65566

    عنوان: عورتوں کے پردہ کے بارے میں قرآن میں اللہ کا جو فرمان ہے اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ برقعہ، حجاب یا لپٹنے والی چادر ؟

    سوال: عورتوں کے پردہ کے بارے میں قرآن میں اللہ کا جو فرمان ہے اس کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ برقعہ، حجاب یا لپٹنے والی چادر ؟

    جواب نمبر: 65566

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 747-761/Sd=9/1437

     

    قرآن کریم میں عورتوں کے پردے کے بارے میں جو آیت ہے، اس میں بنیادی طور پر ”جلباب“ کا لفظ آیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباسکے بہ قول ”جلباب“ اس چادر کوکہاجاتاہے جواوپرسے لے کر نیچے تک پورے جسم کو چھپائے، لغت ِ عرب میں بھی ”جلباب“ اس چادرکوکہا جاتاہے جوپورے بدن کو چھپالے نہ کہ وہ چادر جوبعض جسم کو چھپالے: قال العلامة الآلوسی: والجلابیب جمع جلباب: وہو علی ماروی عن ابن عباسالذی یسترمن فوق الی أسفل (روح المعانی: ۱۱/۲۶۴، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت) وقال الامام ابن حزم: والجلباب فی لغة العرب التي خاطبنا بہا رسول اللّٰہﷺ ہوماغطّٰی جمیعَ الجسم لابعضہ․ (المحلی لابن حزم: ۳/۲۱۷، ط: دارالفکر، بیروت) وقال ابن منظور: الجلباب ثوب أوسع من الخمار دون الرداء تغطی بہ المرأة رأسہا وصدرہا (لسان العرب: ۱/۲۷۲، ط: دراصادر، بیروت، وکذا فی تاج العروس: ۲/۱۷۵، دارالہدیة، بیروت) مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آیت مذکورہ میں عورتوں کو مکمل بدن چہرہ کے ساتھ چھپانے کا حکم ہے اورآیت کے نزول کامقصد بھی یہی ہے، چناں چہ جملہ مفسرین عظام اس کا یہی مطلب سمجھتے ہوئے آئے ہیں: حضرت عبداللہ بن عباساس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی عورتوں کو یہ حکم فرمایا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں کے ذریعے اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ کھولیں اورحضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی توانصار کی خواتین اپنے گھروں سے اس طرح نکلیں کہ گویاان کے سر اس طرح بے حرکت تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور ان کے اوپر کالا کپڑاتھا، جسکو وہ پہنی ہوئی تھیں۔ فأخرج ابن جریر وابن أبي حاتم وابن مردویہ عن ابن عباسفی ہذہ الآیة قال: أمر اللّٰہ نساءِ الموٴمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق روٴوسہن بالجلابیب ویبدین عینًا واحدة․ وأخرج عبدالرزاق وأبو داوٴد وابن أبی حاتم عن أم سلمةقالت: لمّا نزلت ہٰذہ الآیة: ”یدنین علیہن من جلابیہن“ خرج نساء الأنصار کأن علی روٴوسہن الغربان من السکینة وعلیہن أکسیة سود یلبسونہا․ (فتح القدیر: ۴/۳۵۲، ط: دارابن کثیر) وقال الواحدي: قال المفسرون: یغطین وجوہہن وروٴسہن الاعینًا واحدةً (فتح القدیر: ۴/ ۳۴۹، دارابن کثیر) محمد بن سیرین نے حضرت عبیدہ بن سفیان سلمانیسے چادر کے اوڑھنے کا طریقہ معلوم کیا تو انھوں نے اپنی شال اٹھائی اورپہلے انھوں نے اپنے سر اورپیشانی کو اس طرح ڈھانکا کہ بھنویں تک چھپ گئیں، پھر اسی چادر سے اپنے چہرے کے بقیہ حصے کو اس طرح چھپایا کہ صرف داہنی آنکھ کھلی رہ گئی، اورحضرت قتادہاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورت اپنے جلباب کو اپنی پیشانی سے موڑ کر باندھ لے اور پھر اپنی ناک پرموڑلے، اگرچہ دونوں آنکھیں ظاہر ہوجائیں؛ لیکن اپنے سینے کو اورچہرے کے اکثر حصے کو چھپالے۔ وعن محمدبن سیرین قال سألتُ عبیدة السلمانی عن ہٰذہ الآیة: یدنین علیہن من جلابیبہن، فرفع ملحفةً کانت علیہ وغطی رأسہ کلّہ حتی بلغ الحاجبین وغطی وجہہ وأخرج عینہ الیُسریٰ من شق وجہہ الأیسر وقال قتادة: تلوی الجلباب فوق الجبین وتشدہ ثم تعطفہ علی الأنف وان ظہرت عیناہا لکن تستر الصدرومعظم الوجہ (روح المعانی: ۱۱/۲۶۴، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت، ہکذا قال العلامة القرطبی في تفسیرہ: ۱۴/۴۸۱، ط: دارطیبة للنشر والتوزیع، وأبوالسعود: : ۷/۱۱۵، ط: داراحیاء التراث العربي، والقاضي ثناء اللّٰہ فيالتفسیرالمظہري: ۷/۳۸۴، ط: مکتبة الرشیدیة، باکستان) ، بہر حال یہ آیت اس بارے میں صریح ہے کہ عورتوں کو گھروں سے نکلتے وقت اپنے بدن کے پردے کے ساتھ ساتھ چہرہ کابھی پردہ ضروری ہے، اب اس کے لیے کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے، جس میں پورا بدن چہرہ سمیت چھپ جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند