• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 63281

    عنوان: پرمننٹ برتھ کنٹرول

    سوال: میں ابو ظہبی میں کام کرتا ہوں، یہاں میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہوں ، میرے ۲ بیٹے ہیں ، اور اب میری بیوی حمل سے ہے ، پہلے دونوں بچے آپریشن ) سیزیرین (سے ابو ظہبی میں ہوئے تھے ۔ اوراب تیسرا بچہ ۷ ماہ مہینے کا ہے ابو ظہبی کے ڈاکٹر نے صلاح دی ہے کہ انڈیا چلے جاوَ، کیوں کہ یہ "ہیلی کریٹیکل کیس" ہے ۔اور میں نے بیوی اور بچوں کو انڈیا بھیج دیا ، اب انڈیا اپولو ہسپتال کے ڈاکٹرتیسرا سیزیرین کے ساتھ ساتھ مستقل برتھ کنٹرول کرنے کو کہا ہے ، تو کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟میں نے سنا ہے کہ انڈیا میں تیسرا بچہ آپریشن سے ہوتا ہے تو وو پہلے پرمستقل برتھ کنٹرول کے کاغذ پر دستخط لینے کے بعد آپریشن کرتے ہیں۔ مجھے اس حال میں کیا کرنا ہے ؟

    جواب نمبر: 63281

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 339-351/N=4/1437-U شریعت میں مستقل برتھ کنٹرول کرانا یعنی: ہمیشہ کے لیے بچے بند کرانے کا آپریشن کراناحرام ہے؛ کیوں کہ یہ تغییر لخلق اللہ ہے اور بحکم خصا ہے، صرف سخت مجبوری اور اضطرار کی حالت میں اس کی اجازت ہوتی ہے، مثلاً بچہ دانی سڑ گئی یا اس میں کینسر ہوگیا جس کی بنا پر اسے نکالدینا ضروری ہو؛ اس لیے صورت مسئولہ میں بچہ بند کرانے کا آپریشن نہ کرایا جائے، اوربذریعہ آپریشن زچگی سے پہلے مستقل برتھ کنٹرول کے کاغذات پر دستخط بھی نہ کیے جائیں، اور ڈاکٹرکو صاف طور منع کردیا جائے کہ میں منع حمل کے لیے کوئی مناسب تدبیر اختیار کرلوں گا، آپ بچے بند کرنے کا آپریشن نہ کریں۔ اوربیوی کی صحت یابی کے بعد اس سے صحبت کے وقت آپ عارضی مانع حمل تدابیر ضرور اختیار کریں، مثلاً کنڈوم وغیرہ کا استعمال، اس میں ذرا بھی غفلت نہ برتی جائے، اور کنڈوم اچھی کوالٹی کا استعمال کیا جائے اور شروع سے چڑھانے کے بجائے انزال سے کچھ پہلے چڑھایا جائے اور فارغ ہونے کے بعد عورت بطور خاص استنجا بھی کرلیا کرے، اس کا اگر اہتمام کیا جائے تو انشاء اللہ حمل کا استقرار ہی نہ ہوگا۔ اور اگر منع حمل کی کوئی اورعارضی تدبیر اختیار کی جائے جیسے: ملٹی لوڈ کرانا یا کسی تجربہ کار لیڈی ڈاکٹر کے مشورہ سے کوئی اور عارضی غیر مضر تدبیر اختیار کی جائے تو اس میں بھی شرعاً کچھ حرج نہیں، اور اگر خدانخواستہ کبھی حمل کا استقرار ہوجائے اور ماہر ودین دار ڈاکٹروں کی رائے کے مطا بق حمل کا باقی رکھنا آگے خطرہ کا باعث ہوسکتا ہو تو ایسی صورت میں بوجہ مجبوری (چاند کے حساب سے) چار ماہ مکمل ہونے سے پہلے اسقاط حمل کی گنجائش ہوگی، الحاصل بڑے آپریشن سے ولادت کی صورت میں دو بچوں کے درمیان مناسب مدت کا وقفہ کرنے کے لیے منع حمل کے لیے جو مناسب وعارضی اور کام یاب تدابیر اختیار کی جاتی ہیں، وہی تیسرے آپریشن کے بعد بھی اختیار کی جائیں، ہمیشہ کے لیے بچے بند کرانے کا آپریشن نہ کرایا جائے لما تقرر فی الشرع من أن الضرورات تبیح المحظورات والضرورة تتقدر بقدر الضرورة، والضرورة إذا اندفعت بالأخف حظراً لا یرجع إلی الأشد حظراً۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند