• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 609410

    عنوان:

    لڑکی پر پورے گھر کی ذمے داری ‏، ساس کی لعن طعن اور اپنے ماں باپ سے تعلق رکھنے پر پابندی؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام نام وہ وہ مفتیان عظام مسائل ذیل کے بارے میں بیّنوا و توجروا سوال ۱ : سسرال میں کام کی زیادتی ہے وہاں پر ساس سسر کے علاوہ تین دیور اور شوہر بیٹے سمیت ان تمام کے لیے تینوں وقت کا کھانا بنانے کی ذمہ داری بلا کسی شرکت غیر اٹھانی پڑتی ہے تینوں وقت کے برتنوں کی صفائی اور خود کے کپڑوں اور روم کچن کی صفائی کرنی پڑتی ہے اسی میں دن بھر کا وقت صرف ہو جاتا ہے اس کے باوجود ان کی لعن طعن لگی رہتی ہے جبکہ شوہر کو یہ ساری باتیں بتانے پر بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ شوہر بھی ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوکہ ہی کرتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے گھر پر چھوڑ کر آنے کی بات کرتے ہیں- اور آخری مرتبہ ساس کی زیادتی پر اور یہ کہنے پر کہ میں روز تمہارے درمیان جھگڑے لگاؤ گی اور روز شعیب( داماد ) تجھ سے غصہ کر چلے جائے گا اور غلیظ گندی گالی دینے پر دلبرداشتہ ہو کر بغیر اجازت میکے چلی آنا کیسا ہے تاکہ ان باتوں کا کوئی حل نکلے جبکہ یہ یقین اور تجربہ ہے کہ شوہر سے اجازت لینے پر اجازت نہیں ملے گی میکہ سسرال سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ سوال ۲ : شوہر کا یہ کہنا کہ بیوی نے اپنے ماں باپ سے صرف محبت رکھنا ھے تعلق نہیں رکھنا اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے ؟ سوال ۳ : شوہر لڑکی والوں کا احسان نہ مانے لڑکی والوں کو بالکل خاطر میں لائے ہی نہیں جو کچھ ہے وہ یہ سمجھے کہ شوہر نے نکاح کرکے لڑکی والوں پر احسان کیا ہے اور لڑکی والوں کا کوئی احسان ہے ہی نہیں اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے کیا لڑکی والوں نے ہمیشہ داماد کا احسان مانے عزت دے قدر کریں بھلے ہی وہ قدر نہ کریں نہ عزت دے احسان کس کا بڑا ہوا ہے کسی کو بہت کچھ دینا احسان ہے یا لینا احسان ہے بیٹی کسی کے نکاح میں دینا احسان عظیم ہے یا نہیں ؟ سوال ۴ : بیوی کے ذمہ شوہر کے کون کون سے کام فرض ہے ؟ سوال ۵ : اوپر بیان کئے گئے ان تمام حالات میں بیٹی کے ماں باپ بیچ میں بات کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ سوال ۶: کیا نکاح کے بعد ساری اجارہ داری شوہر کی ہی ہوتی ہے ؟ سوال ۷ : کیا نکاح کے بعد بیوی اپنے والدین سے اپنی مرضی سے مل نہیں سکتی؟ یا ملنے کی درخواست تک نہیں کر سکتی؟

    سوال ۸ : کیا شوہر پر اپنے سسرال والوں کا عزت و احترام لازم نہیں؟ سوال ۹ : نکاح کے بعد بیوی پر کن کن کی خدمت ضروری ہے ؟ سوال ۱۰ : بیوی پر شوہر کے علاوہ شوہر کے رشتہ داروں کے کام کرنا فرض ہے یا نہیں سوال ا : جتنی جگہ ناپاک ہو, صرف اتنی ہی جگہ پاک کرنی ضروری ہے یا پورا کمرہ؟

    جواب نمبر: 609410

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 867-510/TL=8/1440

     

    (۱)مذكورہ بالا صورت میں ازروئے شرع آپ پر ساس سسر اور دیور وغیرہ كے لئے كھانا بنانا واجب نہیں اگر آپ ان كے لئے كھانا بنانے سے منع كردیں   تو شوہر یا ساس سسر وغیرہ آپ كو مجبور نہیں كرسكتے ،مگر چونكہ ساس سسر شوہر كی وجہ سے قابل احترام اور مثل ماں باپ كے ہوتے ہیں؛اس لئےآپ كو ان كی تعظیم وتكریم كرنی چاہئے اور ان كی خدمت كو اپنے اوپر بوجھ نہیں سمجھنا چاہئے ۔حضرت تھانوی علیہ الرحمة ‘‘بہشتی زیور ’’ میں خواتین كو خطاب كرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں كہ جب تك ساس سسر زندہ رہیں ان كی خدمت كو ان كی تابع داری كو فرض جانو،اور اسی میں اپنی عزت سمجھو اور ساس نندوں سے الگ ہوگر رہنے كی ہرگز فكر نہ كرو الخ(بہشتی زیور :حصہ چہارم ،نكاح كا بیان (باب ۳۱) ص ؍ ۴۷؍۴۸؍ط تاج كمپنی كراچی)؛لہذا آپ احوال زمانہ كا خیال كرتے ہوئے كوشش یہی كریں كہ آپ كی وجہ سے گھر میں انتشار یا تفریق كی نوبت نہ آئے۔ بہت سی چیزیں شرعا لازم نہیں ہوتیں ؛لیكن ان كا كرنا بہرحال ثواب سے خالی نہیں ہوتا؛اس لئے آپ ان تمام چیزوں میں تساہل سے كام لیں تاكہ گھر كا نظام برقرار رہے ،نیز ساس سسر اور شوہر كو بھی چاہئے كہ كام كرنے كے باجود وہ لعن طعن نہ كریں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمیشہ كے لئے گھر چھوڑ آنے كی دھمكی نہ دیں اگر وہ واقعی ایسا كرتے ہیں تو ان كا یہ عمل انتہائی غلط ہے ان سب كو اپنے عمل سے احتراز كرنا لازم ہے ۔ جہاں تك دل برداشتہ ہوكر گھر چلے آنے كا مسئلہ ہے تو گھر چلے آنا مسائل كا حل نہیں ہے بلكہ وہیں پر رہ مسائل كو حل كرنا چاہئے، اگر آپ كو زیادہ پریشانی لاحق ہو تو آپ اپنے گھرانے كے كچھ بڑے حضرات كے سامنے یہ سب باتیں ركھ سكتی ہیں ، ان شاء اللہ وہ كوئی حل نكالنے كی كوشش كریں گے۔(۲)شوہر كاآپ سے یہ كہنا كہ بیوی كو صرف اپنے ماں باپ سے محبت ركھنا ہے تعلق نہیں ان كی یہ بات شرعا درست نہیں محبت كے ساتھ ساتھ تعلق بھی ركھنا شریعت كا مقتضی ہے ؛لہذا شوہر كو چاہئے كہ وہ آپ   كو والدین سے تعلق ركھنے سے منع نہ كریں بلكہ حسب موقع وضرورت وقتا فوقتا اپنے خاندان اور عرف كے مطابق آپ كو والدین اور محارم سے ملاقات   كی اجازت دیدے خواہ خود لیجاكر ملاقات كرائے یا اپنی اجازت سے آپ كو بھیج دے یا بیوی كے والدین كو اپنے گھر ملاقات كا موقع دیدے۔ (۳) نكاح كے بعد شوہر وبیوی ہر ایك پر دوسرے كے حقوق متعلق ہوتے ہیں ، دونوں كو اس كی فكر كرنی چاہیے، شوہر كا ایسا رویہ اختیاركرنا كہ یہ محسوس ہوكہ اس نے نكاح كركے بڑا احسان كیا ہے مناسب نہیں ، شوہر كو بھی اپنے سسرالی رشتے كی قدر كرنی چاہیے اور بیوی كے والدین وغیرہ كی عزت كرنی چاہیے۔(۴)بیوی كے ذمہ شوہر كے حقوق درج ذیل ہیں: (الف)ہر جائز كام میں اس كی اطاعت كرنا اس كی خدمت كرنا اس كے ساتھ دلجوئی رضاجوئی كا پھر پور اہتمام كرنا (ب)اس كے مال وجائیداد كی حفاظت كرنا اور بغیر اس كی اجازت كے اس كا مال كہیں پر خرچ نہ كرنا ۔(ج)اپنی ذات كے سلسلے میں اس كے حق میں ہرگز كوئی خیانت نہ كرنا۔ (د)اس كی وسعت اور حیثیت سے زیادہ اس سے كسی چیز كی فرمائش نہ كرنا۔ (ھ)شوہر اگر كسی بات پر ڈانٹ ڈپٹ كردے یا خلاف طبیعت كوئی بات كہہ دے تو تركی بہ تركی اس كو جواب نہ دینا اگر چہ وہ ناحق پر ہی ہو ؛ہاں جب غصہ ختم ہوجائے تو شوہر جس بات كی وجہ سے ناراض ہوا ہو اس كی صحیح وضاحت اس كے سامنے كردی جائے تاكہ اس كا دل صاف ہوجائے۔ (ز)كبھی بھی شوہر كی بے ادبی نہ كرنا۔ (۵)اس كا جواب نمبر كے ایك ضمن میں گزر چكا۔ (۶) نكاح كے بعد بیوی بالكل غلام نہیں بن جاتی بلكہ شرعاً كچھ حقوق شوہر بھی عائد ہوتے ہیں جن كی رعایت شوہر كو كرنی چاہیے۔(۷) اس كا جواب نمبر دو كے تحت گزر چكا۔ (۸) اس كا جواب نمبر ۳؍ كے تحت گزر چكا (۹؍۱۰) نكاح كے بعد بیوی پر شوہر كی خدمت دیانة اور اخلاقا واجب ہے اس كے علاوہ شوہر كے رشتے داروں كی خدمت بیوی پر واجب نہیں؛تاہم عرفا واخلاقا عورت كردے جیسا كہ ہمارے یہاں معمول ہے تو یہ عورت كی طرف سے شوہر كے رشتے داروں پر تبرع ہوگا ؛لیكن ان كی خدمت كے لئے عورت كو مجبور نہیں كیا جاسكتا ہے۔(۱۱) ناپاك جگہ كو دھودینا كافی ہے پورا كمرہ دھونا ضروری نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند