• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 609227

    عنوان:

    کیا حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بدکار تھی؟

    سوال:

    سوال : قرآن کریم میں آیا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں اللہ تعالیٰ کمی بیشی معاف فرمائے ۔ کہ بدکار کو بدکار بیوی ملے گی۔ اور نیکوکاروں کو نیک بیویاں ۔ تو میرا سوال یہ ہے ۔ کہ کیا حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی بدکار تھی۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے پتھر کا بنا لیا؟

    جواب نمبر: 609227

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 687-138T/M=06/1443

     آپ نے قرآن کریم کی جس آیت کا مفہوم پیش کیا ہے وہ سورہ نور کی یہ آیت: الْخَبِیْثَاتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثَاتِ وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبَاتِ الخ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ گندی عورتیں، گندے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد، گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں اور پاک صاف عورتیں پاک صاف مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور پاک صاف مرد، پاک صاف عورتوں کے لائق ہوتے ہیں۔

    حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں اس کے تحت لکھتے ہیں: ”اس آخری آیت میں اول تو عام ضابطہ یہ بتلا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے طبائع میں طبعی طور پر جوڑ رکھا ہے، گندی اور بدکار عورتیں، بدکار مردوں کی طرف اور گندے بدکار مرد، گندی بدکار عورتوں کی طرف رغبت کیا کرتے ہیں، اسی طرح پاک صاف عورتوں کی نیت پاک صاف مردوں کی طرف ہوتی ہے اور پاک صاف مردوں کی رغبت پاک صاف عورتوں کی طرف ہوا کرتی ہے اور ہر ایک اپنی اپنی رغبت کے مطابق اپنا جوڑ تلاش کرتا ہے اور قدرةً اس کو وہی مل جاتا ہے۔ اس عام عادت کلیہ اور ضابطہ سے واضح ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام جو دنیا میں پاکی و صفائی ظاہری و باطنی میں مثالی شخصیت ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالی ان کو ازواج بھی ان کے مناسب عطا فرماتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام انبیاء کے سردار ہیں ان کو ازواج مطہرات بھی اللہ تعالی نے پاکی اور صفائی ظاہری اور اخلاقی برتری میں آپ ہی کی مناسب شان عطا فرمائی ہیں اور صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان سب میں ممتاز ہیں، ان کے بارے میں شک و شبہ وہی کرسکتا ہے جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہو، اور حضرت نوح و حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کے بارے میں جو قرآن کریم میں ان کا کافر ہونا مذکور ہے تو ان کے متعلق بھی یہ ثابت ہے کہ کافر ہونے کے باوجود فسق و فجور میں مبتلا نہیں تھیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ما بغت امرأة نبی قط۔ یعنی کسی نبی کی عورت نے کبھی زنا نہیں کیا (ذکر فی الدر المنشور) اس سے معلوم ہوا کہ کسی نبی کی بیوی کافر ہوجائے اس کا تو امکان ہے مگر بدکار فاحشہ ہوجائے یہ ممکن نہیں، کیوں کہ بدکار طبعی طور پر موجب نفرت عوام ہے، کفر طبعی نفرت کا موجب نہیں۔ (بیان القرآن) (معارف القرآن: 6/383-384، سورہ نور)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند