• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 603457

    عنوان:

    عورت كا كھلے چہرے كے ساتھ یوٹیوب چینل پر دین كی دعوت دینا؟

    سوال:

    موجودہ حالات کے پیش نظر کوئی معلمہ بغیر نقاب کے کھلے چہرے کے ساتھ یوٹیوب یا کسی بھی چینل پر کیا دین کی دعوت دے سکتی ہے ؟ اس بارے میں قران حدیث کی روشنی میں مفصل جواب دے دیجیے ۔

    جواب نمبر: 603457

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:580-103T/N=8/1442

     شریعت میں عورتوں پر اجنبی مردوں سے پردہ فرض ہے اور پردہ میں چہرہ بھی داخل ہے؛ کیوں کہ وہ مجمع ِمحاسن ہوتا ہے، اور عورتوں کو پردہ کا حکم خوف فتنہ کی وجہ سے ہے اور دور حاضر میں فواحش ومنکرات کی کثرت نے خوفِ فتنہ فزوں تر کردیا ہے اور یوٹیوب چینل عام فلیٹ فارم ہوتا ہے، اسے دنیا میں کہیں سے بھی ہر کوئی دیکھ سکتا ہے؛ لہٰذا کسی معلمہ یا غیر معلمہ مسلم خاتون کا کھلے چہرے کے ساتھ دینی دعوت کے نام پر یا کسی بھی کام کے لیے یوٹیوب چینل پر آنا درست نہیں، نیز یوٹیوب پر تصویر کے ساتھ آنے میں تصویر کشی اور ویڈیو گرافی کا بھی گناہ ہوتا ہے؛ کیوں کہ اکابر علمائے دیوبند کی تحقیق یہی ہے کہ ڈیجیٹل تصاویر بھی، عام تصاویر کی طرح ناجائز ہیں، یعنی: جان دار کی تصویر کشی اور ویڈیو گرافی کی ممانعت کی نصوص ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل دونوں قسم کی تصاویر کو شامل ہیں اور دونوں ناجائز ہیں۔

    قال اللّٰہ تعالیٰ: ﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ﴾(سورة الأحزاب، رقم الآیة: ۵۹)۔

    قال أبو بکر: في ہذہ الآیة دلالة علی أن المرأة الشابة مأمورة بسترة وجہھا عن الأجنبیین (أحکام القرآن للجصاص ۳:۳۷۲)۔

    وقال اللّٰہ تعالی أیضاً: ﴿وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْاُوْلٰی﴾(سورة الأحزاب، رقم الآیة: ۳۳)۔

    قال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس : أمر اللّٰہ نساء الموٴمنین إذا أخرجن من بیوتہن في حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق رؤوسہن بالجلابیب، ویبدین عینًا واحدة (تفسیر ابن کثیر، ص: ۱۰۸۳)۔

    عن ابن مسعود عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: المرأة عورة فإذا خرجت استشرفہا الشیطان رواہ الترمذي (مشکاة المصابیح، کتاب النکاح،باب النظر إلی المخطوبة، الفصل الثاني،ص: ۲۶۹ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    قولہ ”استشرفہا الشیطان“ أي زینہا في نظر الرجال والمعنی: أن المرأة یستقبح بروزہا وظہورہا فإذا خرجت أمعن النظر إلیہا لیغویہا بغیرہا، ویغوي غیرہا، بہا لیوقعہا، أو أحدہما في الفتنة (تحفة الأحوذي ۴/۲۸۳المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    قال الإمام الشاہ ولي اللّٰہ : اعلم أنہ لما کان الرجال یہیّجہم النظر إلی النساء علی عشقہن والتوجہ بہن، ویفعل بالنساء مثل ذٰلک، وکان کثیرًا ما یکون ذٰلک سببًا لأن یبتغي قضاء الشہوة منہن علی غیر السنة الراشدة، کاتباع من ہي في عصمة غیرہ، أو بلا نکاح، أو غیر اعتبار کفاء ة، والذي شوہد من ہٰذا الباب یغني عما سطر في الدفاتر، اقتضت الحکمة أن یسد ہذا الباب(حجة اللّٰہ البالغة، ۲:۳۲۸، ط: مکتبة حجاز دیوبند)۔

    (وتمنع) المرأة الشابة (من کشف الوجہ بین الرجال)؛ لا لأنہ عورة؛ بل لخوف الفتنة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ۲:۷۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۳: ۲۱، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”وتمنع العورة إلخ“: أي: تنھی عنہ وإن لم یکن عورة۔ قولہ: ”بل لخوف الفتنة“: أي: الفجور بھا، قاموس، أو الشھوة، والمعنی: تمنع من الکشف لخوف أن یری الرجال وجھھا، فتقع الفتنة؛ لأنہ مع الکشف قد یقع النظر إلیھا بشھوة (رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند