معاشرت >> عورتوں کے مسائل
سوال نمبر: 602108
شوہر کے انتقال کے وقت عورت سفر میں ہو تو وہ عدت کہاں گزارے گی؟
کیا فر ماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ، ایک عورت اپنے رشتہ دار کے یہاں سفر پہ گئی ہے اور شوہر کا انتقال ہو جائے تو وہ عورت عدت کہاں گزارے گی،رشتہ دار کے یہاں یا پھر اسے شوہر کے گھر آنا ہوگا، مسافت سفر کے بارے میں بھی وضاحت کی جائے ؟
جواب نمبر: 602108
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:382-321/N=6/1442
اگر کوئی عورت اپنے میکے یا کسی رشتہ دار کے گھر گئی ہوئی ہو اور شوہر کا انتقال ہوجائے اور عورت کا گھر جہاں وہ شوہر کے ساتھ رہتی ہے ، اس کی مسافت سفر شرعی سے کم ہو، تو وہ عورت جلد از جلد اپنے گھر آکر عدت گذارے گی، اُس کے لیے میکے میں یا رشتہ دار کے گھر رکنا یا وہاں عدت گذارناجائز نہیں۔ اور اگر دونوں کے درمیان سفر شرعی کی مسافت ہو اور میکے میں یا رشتہ دار کے گھر عدت گذارنے میں کوئی مانع نہ ہو تو عدت میں سفر نہ کرے؛ بلکہ میکے میں یارشتہ دار کے گھر ہی عدت گذارے۔
لو کانت زائرة أھلھا أو کانت في غیر بیتھا لأمر حین وقوع الطلاق انتقلت إلی بیت سکناھا بلا تأخیر، وکذا في عدة الوفاة کذا في غایة البیان (۲: ۱۵۹/ ب، مخطوط) (الفتاوی الھندیة، کتاب الطلاق، الباب الرابع عشر في الحداد، ۱:۵۳۵، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔
(أبانھا أو مات عنھا في سفر) ولو في مصر ……أو (کانت في مصر) أو قریة تصلح للإقامة (تعتد ثمة) إن لم تجد محرماً اتفاقاً، وکذا إن وجدت عند الإمام (ثم تخرج بمحرم) إن کان (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد، ۵: ۲۲۷ - ۲۲۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۰: ۳۷۱ - ۳۷۴، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔ قولہ: ”تصلح للإقامة“: بأن تأمن فیھا علی نفسھا ومالھا وتجد ما تحتاجہ (رد المحتار)۔
قولہ: ”وقالا: إن کان معھا محرم “: وھو قول أبي حنیفة أولاً، وقولہ الآخر أظھر، انتھی فتح وکافي (حاشیة الشلبي علی التبیین، کتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الإحداد، ۳: ۳۸، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند