معاشرت >> عورتوں کے مسائل
سوال نمبر: 601821
حمل روكنے كے لیے آپریشن كرانا؟
جناب کیا فرماتے ہیں، علما کرام اس بارے میں کے میری اہلیہ جس کی عمر اس وقت ۳۶سال ہے اور میرے ۵بچے ہیں اور میری اہلیہ ریڑھ کی اور مہرو کی ہڈی میں خلا کی مریض ہے اور جس وجہ سے ہم مذید بچے خواہش کے باوجود معذور ہیں کیونکہ دوران حمل مرض شدت اختیار کر جاتا ہے اور جان پر بن جاتی ہے میرا آخری۳سالہ بچہ جو پیدا ہوا ہے وہ بالکل خطرناک حالت میں پیدا ہوا ہے اور میری اہلیہ کی حالت اتنی خراب تھی کہ کوئی بھی ہسپتال والے کیس لینے کو تیار نہ تھے بس اللہ نے کرم کردیا ورنہ ڈاکٹرز نے زچہ اور بچہ دونوں کی زندگی سے ناامیدی کا اظہار کردیا تھا۔اب یہ فتوی مقصود ہے کے اگر ہم اہلیہ کا ماں بننے کی صلاحیت اگر آپریشن کے ذریعے ختم کرا دیں۔(نیز ہم کنڈوم وغیرہ سے بھی احتیاط کرکے دیکھ چکے ہیں لیکن کبھی کبھی بے احتیاطی سے حمل ٹہر جاتا ہے جس کو فوری طور تو مانع حمل گولی سے زائل کر لیتے ہیں لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے کیوں کے اگر حمل کو زیادہ دن ہوگیا تو بھی شریعی مسئلہ ہے )۔تو شریعت میں اسکی کیا گنجائش ہے۔براہ مہربانی قران و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
جواب نمبر: 601821
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 333-284/M=05/1442
آپریشن کے ذریعہ دائمی طور پر تولید کی قوت کو ختم کردینا عام حالات میں حرام و ناجائز ہے اس لیے صورت مسئولہ میں پہلے اس بات کی پوری کوشش کی جائے کہ اس کا ارتکاب نہ کیا جائے اور استقرار حمل سے بچنے کے لیے بحالت عذر ، عارضی مانع حمل تدابیر (کنڈوم وغیرہ) اختیار کرنے پر اکتفاء کیا جائے لیکن اگر مرض و عذر کی حالت سنگین ہو جائے اور مسلمان ماہر ڈاکٹروں کی رائے میں استقرار حمل سے ہی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے تو ایسی سخت مجبوری میں آپریشن کے ذریعہ دائمی طور پر قوت تولید ختم کرانے کی گنجائش ہوسکتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند