معاشرت >> عورتوں کے مسائل
سوال نمبر: 600010
بیوی كے علاج كا خرچ نفقہ میں داخل ہے یا نہیں؟
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کے دور میں بیوی کے علاج ومعالجہ کا خرچہ نفقہ میں داخل ہے کہ نہیں ؟ زید کا مؤقف ہے کہ بیوی کا علاج ومعالجہ نفقہ میں داخل نہیں کیوں مذاہب اربعہ کی اکثر قدیم کتابوں میں یہ ہے کہ یہ نفقہ میں داخل نہیں ہے ، چنانچہ بہت سی عبارات میں یہی مذکور ہے کہ بیوی کیلئے شوہر پر نہ علاج کی فیس دینا لازم ہے اور نہ دوائی کا خرچہ۔ اسی سلسلے میں فتاوی ہندیہ کی عبارت میں مذکور ہے : ولایجب الدواء للمرض ولا اجرة الطبیب ولا الفصد ولا الحجامة(ج:1،ص:549) بکر کا مؤقف ہے کہ بیوی کا علاج ومعالجہ نفقہ میں داخل ہے کیونکہ موجودہ دور میں بیماریوں کی بہتات ہے اور اس کے علاوہ دیگرکئی وجوہات ہیں: (1) نفقہ کی جو تعریفیں کی گئی ہیں ان سب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علاج ومعالجہ نفقہ کا حصہ ہے کیوں کہ نفقہ اس چیز کا نام ہے جس پر کسی چیز کا بقاء موقوف ہو تو وہ چیز جس طرح طعام، کسوہ اور رہائش ہے اسی طرح موجودہ دور میں وہ علاج بھی ہے اس لئے کہ اس کے بغیر بیوی کا بقاء مشکل ہوتا ہے ۔ (2) قرآن کریم میں آدمیوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ معروف طریقہ سے معاشرت کا حکم ہے "وعاشروھن بالمعروف" کہ بیویوں کے ساتھ معروف طریقے سے اور خوبی کے ساتھ گزرن اور معاشرت کرو، اور یہ معاشرت بالمعروف نہیں ہے کہ شوہر بیوی سے صحت میں فائدہ لیتے رہے اور جب وہ بیمار ہوجائے تو اس کیلئے ڈاکٹر وغیرہ کا بندوبست نہ کرے اس کو یوں ہی چھووڑ دے یا اس کے گھر والوں کے ہاں علاج کی خاطر لے جائیں۔ (3) فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی کیلئے سردی اور گرمی کے مطابق کپڑے وغیرہ کا بندوبست کرے تاکہ وہ تکلیف سے بچی رہے تو اسی طرح اس کا علاج بھی شوہر کے ذمہ لازم ہونا چاہئے تاکہ عورت تکلیف سے بچ جائے ، علامہ سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نفس کا بقاء اسی پر موقوف ہے تو جس طرح کوئی نفس کھانے کے بغیر باقی نہیں رہتا اسی طرح ملبوسات کے بغیر بھی باقی نہیں رہتا اور آگے فرماتے ہیں کہ اس میں عرف کا اعتبار کیا جائے گا، چناچہ مبسوط کی عبارت یوں ہے : وکذلک بفرض لہا من الکسوة ما یصلح لہا للشتاء والصیف فإن بقاء النفس بہما وکما لا تبقی النفس بدون المأکول عادة لا تبقی بدون الملبوس عادة والحاجة إلی ذلک تختلف باختلاف الأوقات والأمکنة فیعتبر المعروف فی ذلک(ج:5،ص:181) جس طرح ملبوسات پر نفس کا بقاء موقوف ہے اسی طرح علاج ومعالجے پر بھی اس کا بقاء موقوف ہے ۔ (4) قرآن مجید نے بیویوں کے نفقہ کے بارے میں کوئی تحدید بیان نہیں کی بلکہ اسے عرف پر چھوڑا ہے تاکہ شوہر عرف کے مطابق بیوی کیلئے ہر اس چیز کا بندوبست کرے جس کی وہ محتاج ہے اور پرانے زمانے میں چونکہ علاج معالجے بنیادی حاجت نہیں تھی کیونکہ وہ لوگ صحت کے اصولوں کا خیال رکھتے تھے اسی وجہ سے وہ علاج کی طرف زیادہ محتاج نہیں ہوتے اسی لئے اس دور میں کے فقہاء کرام بھی عرف کو دیکھ کر اجتہاد کرتے ، اس کی تائید ہدایہ کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے : وجہ الظاہر أن الحاجة إلی النفقة معلومة الوقوع وإلی الدواء بعارض المرض، ولہذا کانت نفقة المرأة علی الزوج ودواؤہا فی مالہا.(ج:3،ص:209) مگر موجودہ زمانے میں علاج کی حاجت اور کھانے کی ھاجت ایک جیسے ہوگئی ہے بلکہ علاج کھانے کی بنسبت زیادہ اہم ہوگیا ہے کیونکہ مریض کھانے سے زیادہ دوائی کا خواہاں ہوتا ہے اسر اتنی ساری تکالیف اور دردوں میں کھانے کا ساچتا بھی نہیں ہے چہ جائے کہ وہ کھانا وغیرہ کھائے ، اسی وجہ سے علاج بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح کھانا وغیرہ واجب ہے ۔ (5) فقہائے کرام حالت مرض میں بیوی کے نفقہ کے وجوب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نکاح صحبت اور الفت کیلئے کیا جاتا ہے اور یہ الفت نہیں کہ بیوی بیمار ہوجائے تو شوہر اس کو اس کے گھر والوں کے ہاں بھیج دے ، چناچہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ولأن النکاح یعقد للصحبة والألفة ، ولیس من الألفة أن یمتنع من الإنفاق علیہا ، ویردہا إلی أہلہا إذا مرضت(ج:3،ص:53) اب جس طرح حالت مرض میں نفقہ نہ دینا الفت نہیں اسی طرح علاج ومعالجہ برداشت نہ کرنا کہاں کی الفت ہے ؟لہذا جس طرح وہ واجب ہے اسی طرح یہ بھی واجب ہونا چاہئے ، عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ علاج ومعالجہ کا خرچہ شوہر کے ذمہ ہو اسی لئے اگر اس پر یہ خرچہ واجب نہ ہو تو عورت کیا کرے گی؟جبکہ اس دور میں علاج کا علاج کا خرچہ اتنا زیادہ ہوگیا جو عورت کی برداشت سے باہر ہے اگر خود علاج کا خرچہ کمانے کیلئے وہ کسی روزگار کے پیچھے چل کر گھر سے نکلے تو اس سے اس کا نفقہ ساقط ہوتا ہے جس طرح فقہائے کرام فرماتے ہیں۔ ان سب کا حاصل یہ ہے کہ موجودہ دور میں علاج ومعالجہ کا خرچہ دوسری ضروریات کی طرح شوہر کے ذمہ واجب ہے ۔ اب معلوم یہ کرناہے کہ فقہائے احناف کے نزدیک ان دونوں میں دلائل کے اعتبار سے کس کا مؤقف درست ہے ؟ برائے کرم تحقیقی طور پر اس طرح جواب عنایت فرمائیں جس سے غلط مؤقف والے کے دلائل کا جواب بھی واضح ہوجائے ۔ اور اگر بیوی کے پاس مال نہ ہو اور علاج کی محتاج ہو تو اس صورت میں علاج کا خرچہ کس کے ذمہ ہوگا ؟ جبکہ الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے : قرر فقہاء المذاہب الأربعة (2) أن الزوج لا یجب علیہ أجور التداوی للمرأة المریضة من أجرة طبیب وحاجم وفاصد وثمن دواء، وإنما تکون النفقة فی مالہا إن کان لہا مال، وإن لم یکن لہا مال، وجبت النفقة علی من تلزمہ نفقتہا؛ لأن التداوی لحفظ أصل الجسم، فلا یجب علی مستحق المنفعة، کعمارة الدار المستأجرة، تجب علی المالک لا علی المستأجر، وکما لا تجب الفاکہة لغیر أدم. (القسم السادس الاحوال الشخصیة، الفصل الخامس النفقات،المبحث الاول نفقة الزوجة،المسالة الثالثة،ج:10،ص:7380،ط:دار الفکر) کیا الفقہ الاسلامی وادلتہ کی اس عبارت کے مطابق موجودہ زمانہ میں فتوی دیا جاسکتا ہے ؟ براہ کرم تفصیلی اور مدلل جواب دیکر رہمنائی فرمائیں۔
جواب نمبر: 600010
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 51-16T/H=02/1442
بکر نے جتنے دلائل ذکر کئے ہیں اُن سے اُس کا مدعا ثابت نہیں ہوتا حضراتِ فقہاء کرام نے جو تصریحات کی ہیں اُن سے زید کا قول درست و صحیح ہونا ثابت ہے، آجکل علاج معالجہ بہت مہنگا ہوگیا ہے اگر بیوی اِس کی متحمل نہ ہو تو وہ علاج کہاں کرائے گی؟ یہ تو کوئی معقول وجہ نہیں اگر شوہر بھی غریب و بیمار ہو تو ایسی صورت میں دونوں کے علاج معالجہ کی کیا شکل ہوگی؟ اگر عورت کے پاس اپنا زیور وغیرہ ہے تو اس سے علاج کے اخراجات پورے کرلینا کچھ بھی مشکل نہیں نیز حسن معاشرت کا تقاضہ کچھ اور ہے اور عامةً مسلمانوں میں الحمد للہ رواداری پر عمل ہے اس لئے زوجین ایک دوسرے کے نہ صرف واجبی کاموں میں حصہ لیتے ہیں بلکہ انتہائی خوش دلی سے غیر واجبی کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا کر گھر کی خوشحالی میں چار چاند لگاتے ہیں چنانچہ ملکة البیت (گھر کی رانی) ہونے کے ناطے عمدہ عمدہ کھانے وقت پر تیار کرنا بچوں کی دیکھ ریکھ اچھے انداز سے کرنا گھر اور گھریلو اشیاء کو صاف ستھرا رکھنا اسی طرح بیمار ہو جانے پر بیوی کا اچھے سے اچھا علاج کرانا بیوی کے میکہ والوں کا اعزازو اکرام کرنا ساس سسر کو مثل اپنے حقیقی ماں باپ کے سمجھ کر ادب و احترام کرنا وغیرہ وغیرہ جیسے غیر واجبی اور واجبی امور خوشی خوشی انجام دینا مسلمانوں میں عام ہے اگر زوجین اور ان کے اولیاء اور دونوں کے افرادِ خاندان بس واجبی واجبی امور کو انجام دیں غیر واجبی امور سے سب کے سب ہاتھ کھینچ بیٹھیں تو دونوں میاں بیوی اور افراد خاندان کا سکون و اطمینان غارت ہوکر نہ معلوم کتنے گھرانے تباہی و بربادی کے گھاٹ اتر جائیں گے ۔ حاصل یہ کہ بیوی کے علاج معالجہ کا شوہر پر واجب ہونے کا قول غلط اور تصریحاتِ فقہاء کرام کے خلاف ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند