• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 58721

    عنوان: بیوی كے كا جیب خرچ

    سوال: میری تنخواہ چالیس ہزار روپئے ہے، میں اپنی بیوی کو کھانا ، کپڑے اور دوائی دیتاہوں، نیز اس کے موبائل بل کے پیسے علاوہ اس کو اپنے میکے اور رشتہ داروں کے یہاں آنے جانے کے لیے ۲۰۰ سے ۵۰۰ روپئے دیتاہوں، اس کو میکے جانے اور آنے میں ٹیکسی سے ۱۰۰ روپئے خرچ ہوتے ہیں۔میں نے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں۔ میں بیوی کو ہر مہینہ جیب خرچکے لیے ۲۰۰۰ روپئے دیتاہوں۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہتی ہے کہ اس نے ایم اے کیا ہے اور میری شرط کے مطابق کوئی ملازمت نہیں کرر ہی ہے ، اس لےئے ہر مہینہ جیب خرچ کے لیے ۵۰۰۰ روپئے دیں۔شادی سے پہلے میں نے اس کے جیب خرچ کے لیے کوئی وعدہ نہیں کیا تھا، بلکہ میں نے یہ بات واضح کردی تھی کہ مجھے ملازمت کرنے والی لڑکی پسند نہیں ہے ، کیوں یہ ہمارے مذہب میں پسندیدہ نہیں ہے۔اس کی وجہ سے تنگ آچکا ہوں۔تمام خرچ کے بعد تقربیا ً 20000 روپئے ہر مہینہ بچتے ہیں، کیا جیب خرچ کے لیے اس کا زیاد رقم کا مطالبہ کرنا درست ہے؟ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 58721

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 512-504/N=6/1436-U جب آپ اس کے جملہ اخراجات برداشست کرتے ہیں تو جیب خرچ کے طور پر ماہانہ دوہزار روپے بہت ہیں، مزید دینے کی ضرورت نہیں، اور اس کا ایم اے کرنے کے باوجود ملازمت نہ کرنے کی و جہ سے مزید کا مطالبہ غلط ہے؛ کیوں کہ ملازمت سے روکنا آپ کا شرعی حق ہے، بالخصوص جب کہ ملازمت میں شرعی حدود کی پاس داری ممکن نہ ہو، یا اس کی وجہ سے عورت کی صحت یا شباب متأثر ہو تا ہو، البتہ اگر آپ ہرسال جیب خرچ میں کچھ اضافہ کردیا کریں تو اچھا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس پر بھی نظر رکھیں کہ وہ پیسے غلط جگہ خرچ نہ کرے، نیز وہ فضول خرچی کی عادی نہ ہونے پائے؛ بلکہ اسے چاہیے کہ حج یا عمرہ کے ارادہ سے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرے، صدقہ خیرات کا مزاج بنائے، رشتہ دار اور پڑوسیوں میں جو غریب لڑکیاں یا عورتیں ہوں ا ن کا خیال رکھے، ایسی صورت میں ا گر آپ اس کا جیب خرچ دو سے تین یا چار ہزار کردیں یا کبھی کبھی دو ہزار سے زیادہ دیدیا کریں تو بہت اچھا ہوگا؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اچھی آمدنی سے نوازا ہے، لا والذي ینبغي تحریرہ أن یکون لہ منعہا عن کل عمل یوٴذي إلی تنقیص حقہ أو ضررہ أو إلی خروجہا من بیتہ إلخ (شامي: ۵/ ۲۳۵ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند