• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 57186

    عنوان: شرعی پردہ

    سوال: برائے مہربانی اس معاملے میں رہنمائی فرمائیں۔ ۱۔ آپ کی ویب سائٹ پر ایک جگہ لکھا ہے (شرعی پردے میں چہرہ ،ہاتھ، پیر نہیں آتا) دوسری جگہ لکھا ہے پردہ (نقاب)فرض ہے ۔ ۲۔ سعودی عرب کے مفتیاں کرام نے فتوي دیا ہے کہ حجاب فرض ہے نقاب نہیں۔ (نقاب مستحب ہے اگر کوئی کرتا ہے تو اچھی بات ہے اور اگر کوئی نہیں کرتا تو اس میں گناہ نہیں ہے ۔ ۳۔ آپ نے بہت ساری جگہ سورہ الحجاب کا حوالہ دیا ہے سورہ نور کا نہیں دیا جو کہ فائنل رول ہے ۔ ۴۔ میں نے سنا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک بھی چہرہ ہاتھ اور پیر کا پردہ نہیں ہے ۔ ۵۔ یہ اجتہادی مسئلہ ہے تو آپ یہ کیوں لکھتے ہیں کہ جو نقاب نہیں کرتا تو اُسے گناہ ملے گا۔

    جواب نمبر: 57186

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 288-253/Sn=5/1436-U آپ کے سوال کا حاصل جو ہمیں سمجھ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ شرعی پردے میں جب چہرہ داخل نہیں ہے تو اس کے چھپانے کو ضروری کیوں قرار دیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں عرض ہے کہ تقریباً قرآن کریم کی سات آیات اور حدیث کی ستر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کا اصل مطلوب ایسا حجاب ہے جس میں عورت کا وجود ان کی نقل وحرکت اور ظاہر ومخفی زینت کا کوئی حصہ کسی اجنبی مرد کو نظر نہ آئے، یہ حجاب (پردے) کا پہلا درجہ ہے، جس کا حکم آیات ذیل میں دیا گیا ہے: (۱) وَقَرْنَ فِي بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَی (احزاب: ۳۳) قرار رکھو اپنے گھروں میں اور زمانہ جاہلیت کی طرح بے حجابانہ مت پھرو۔ (۲) وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوہُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ (احزاب: ۵۳) اور جب تم (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیویوں سے کوئی چیز مانگا کرو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو۔ ان آیات کا صریح مدلول یہی ہے کہ عورتوں کا کوئی حصہٴ بدن کسی اجنبی کے سامنے ظاہر نہ ہو، ففي أحکام القرآن للتھانوی: وہذہ الآیة تدل علی أن کیفیة الحجاب الشرعي ہو التستر بالبیوت والخدور بحیث لا ینکشف للرجال شيء من أبدانہن وزینتہن․ (۳/۴۰۸ ط: ادارة القرآن کراچی) البتہ بسا اوقات کسی دینی یا دنیوی ضرورت کی بنا پر گھر سے باہر نکلنا ناگزیر ہوتا ہے تو ایسے موقع پر فقہائے کرام نے حجاب کا دوسرا درجہ اختیار کرنے کی اجازت دی ہے جو یہ ہے کہ عورتیں سر سے پاوٴں تک برقع یا لمبی چادر سے پورے بدن کو چھپاکر نکلیں جس سے چہرہ ہتھیلیاں اور بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہو، راستہ دیکھنے کے لیے صرف آنکھ کھولیں یا برقع میں آنکھ کی جگہ جالی لگالیں، حجاب کا یہ دوسرا درجہ ہے، جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے : یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ (احزاب: ۵۹) ”اے پیغمبر کہہ دیجیے اپنی بیویوں سے اور صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی عورتوں سے کہ سر سے نیچی کرلیا کریں اپنے چہرے کے اوپر اپنی چادریں“۔ اس آیت کریمہ میں گھر سے باہر نکلنے کے ضابطہ کی تعلیم ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: أمر اللہ نساء الموٴمنین إذا خرجن من بیوتہن في حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق روٴوسہن بالجلابیب ویبدین عینا واحدة (احکام القرآن: ۳/۱۴۳، ط: ادارة القرآن کراچی) جہاں تک بات ہے اجنبی مردوں کے سامنے عورت کے چہرہ کھولنے کی تو اگرچہ بعض روایات میں اس کا ثبوت ملتا ہے لیکن محققین علماء نے دیگر نصوص کی روشنی میں اسے ”امن فتنہ“ کے ساتھ مقید کیا ہے، اسی لیے جوان عورتوں کو علی الاطلاق اجنبیوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے منع فرمایا ہے ففي الدر المختار مع رد المحتار: وتمنع المرأة الشابة من کشف الوجہ بین الرجال لا لأنہ عورة بل لخوف الفتنة (۲/۷۹ ط: زکریا دیوبند) لہٰذا اس پرفتن دور میں پردے کی فرضیت کو پورا کرنے کے لیے برقع یا اس جیسا کوئی کپڑا جو حجاب کے تقاضے کو پورا کرنے والا ہو، پہننا ضروری ہے، ورنہ گنہگار ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند