• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 41924

    عنوان: عورتوں كا گھر سے باہر نكلنا

    سوال: مجھے چند متفرق سوالات کرنے ہیں براہ کرم مفصل جواب عنایت فرماکر ممنون فرماویں ، 1 ، ہمارے گھر کی عورتیں پردے کی پابندی کرتی ہیں ، اب ہمارے گھر میں عنقریب انشاء اللہ کسی کا نکاح ہونے والا یے ، ہماری عورتیں یہ چاہتی ہیں کہ شادی کی محفل میں جہاں صرف عورتیں ہی ہونگی کیا وہ اپنا سر کھلا رکھ سکتی ہیں؟ سورةالنور کی آیت سے تو جواز معلوم ہوتا ہے کیونکہ اسمیں استثناء میں اونسائھن کی تصریح ہے ۔ آپ کیا فرما تے ہیں؟ 2 ،کیا مرد و عورت کیلئے کلر والی کونٹکٹ لینس لگانا جائز ہے ? کسی مخصوص صورت میں حکم مختلف ہو تو اسکی بھی تصریح فرمائیں۔ 3 ، بالوں میں خضاب کیلئے کالے رنگ کے سوا بقیہ رنگوں کے استعمال کا جواز تو پڑھا ہوا ہے ، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا نیلے ، گلابی ، اور سبز رنگ کا استعمال بھی جائز ہے؟ 4 ، کیا عاشورا کا روزہ ایک رکھ سکتے ہیں یا دو ہی رکھنے ضروری ہیں؟ 5 ، میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ماتحتوں کو ہر جائز کام ( جسے وہ کرنا چاہیں ) کرنے کی اجازت دوں تاکہ میں جب کسی ناجائز کام سے انھیں روکوں تو وہ یوں نہ کہیں کہ آپ ہمیں کچھ کرنے نہیں دیتے اور میں یہ الدین یسر اور یسروا ولا تعسروا کے تحت کرتا ہوں کیا میرا یہ کرنا صحیح ہے ؟ نوٹ ! میں نے باقاعدہ مکمل درس نظامی کیا ہوا ہے اور الحمد للہ مطالعہ کا ذوق ہے اسلئے ہمارے اکابرین کی تصنیفات اور مستند علماء کی تصنیفات کا مطالعہ کرتا رہتاہوں تاہم چونکہ صاحب فتوٰی نہیں ہوں اسلئے خود کو کسی فعل کے جواز و عدم جواز کے فیصلہ کا مجاز نہیں سمجھتا اسلئے جب کوئی مختلف فیہ مسئلہ درپیش ہو تو مادر علمی دارالعلوم دیوبند یا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی طرف اس فعل کے حکم کے لئے رجوع کرتا ہوں ۔ اخیر میں آپ حضرات سے میرے لئے اور میرے گھر والوں کیلئے دعاء کی درخواست ہے ۔فجزاکم اللہ احسن الجزاء

    جواب نمبر: 41924

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1558-1158/D=11/1433 (۱) ایک مسئلہ ہے کسی مسلمان عورت کا دوسری مسلمان عورت کے اعضائے بدن کو دیکھنا تو اس سلسلہ میں فقہاء نے تصریح فرمائی ہے ”تنظر المرأة المسلمة من المرأة کالرجل من الرجل“ (الدر المختار شامي: ۵/ ۲۶۲) یعنی ناف اور گھٹنہ کے ما بین حصہ کے علاوہ ایک مرد دوسرے مرد کو دیکھ سکتا ہے، اسی طرح مسلمہ عورت بھی دوسری مسلمہ عورت کے ناف اور گھٹنہ کے مابین حصے کے علاوہ کو دیکھ سکتی ہے، لہٰذا عورت کے لیے دوسری عورت کے سر کے بال دیکھنا بھی جائز ہے۔ دوسرا مسئلہ ہے کسی عورت کا گھر سے باہر نکلنا خواہ شادی کی تقریب میں شرکت مقصود ہو یا محفل وعظ میں، بلاشرعی یا طبعی ضرورت کے عورت کے لیے باہر نکلنا منع ہے اور جب ضرورةً نکلنا پڑے تو سر سے لے کر پیر تک تمام اعضائے جسم اس کے چھپے ہوئے ہوں بن سنورکر نہ نکلے خوشبو لگاکر نہ نکلے جیسا کہ دیگر آیات قرآنی اور احادیث نبویہ میں ان باتوں کی صراحت موجود ہے۔ مثلاً: یَا اَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ (أحزاب) وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ (نور) اسکے ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شادی کی محفل تک پہنچنا کس انداز سے ہوگا۔ (۲) اور محفل کے اندر پردہ اور غیر مردوں کی نظر سے حفاظت کا کیا انتظام ہوگا؟ عورتوں کا ایسی محفلوں میں اجتماع ہی فتنہ سے خالی نہیں ہے، چہ جائے کہ نیم عریاں لباس اور زیب وزینت کے ساتھ برہنہ سر شرکت کرنا اس کے نتائج بد آنکھوں کے سامنے ہیں، آپ بھی ٹھنڈے دل سے غور فرمالیں۔ لیس للنساء نصیب في الخروج إلا مضطرة (کنز العمال: 45062) نساء کاسیات عاریات مائلات ممیلات روٴوسہن کأسنمة البخت المائلة لا یدخلن الجنة إلخ (مسلم: 3971) کل عین زاینة والمرأة إذا استعطرت فمرت بالمجلس فہي کذا وذکا مشکاة “ جیسی احادیث میں غور فرمالیں اور آیات قرآنی وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُْعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ (النور: ۳۱) فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ (احزاب: ۳۲) کی تفسیر کا مطلالعہ فرمائیں، تو شادی کی محفلوں میں شرکت اور اس سے رونما ہونے والی خرابیوں کا اندازہ لگے گا۔ (۲) عورتیں لگاسکتی ہیں، تزئین مباح میں داخل ہے، لیکن نامحرموں سے آنکھوں کو چھپانا اور ضروری ہوجائے گا، کیونکہ زینت اور مواضع زینت کو چھپانا فرض ہے۔ (۳) کالے کے علاوہ دوسرے رنگ کے خضاب لگانا جائز ہے، بشرطیکہ خضاب میں صرف رنگ چڑھتا ہو، بالوں پر کوئی پرت (تہہ) نہ جمتی ہو۔ (۴) 10 کے ساتھ 9 یا گیارہ کا روزہ ملالینا مستحب ہے، ضروری بمعنی فرض وواجب نہیں ہے۔ (۵) خود سے قیاس واستنباط نہ کریں بلکہ محققین کی کتابوں میں دیکھ لیں یا کسی مستند مفتی سے حکم معلوم کرلیں۔ نوٹ: ٹھیک کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو عافیت دارین اور دین پر استقامت کاملہ نصیب فرمائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند