• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 35969

    عنوان: میری بیوی میرے بھائیوں سے مکمل پردہ کرتی ہے، ہم مشترکہ گھر میں رہتے ہیں۔ میں نے ایک مضمون پڑھا کہ مسلم عورتوں کو باہرجانے اور ، شادیوں میں شرکت کرنے اورمول(شاپنگ سینٹر) اور مارکیٹ میں جانے کا مشورہ دینا اچھا نہیں ہے۔ میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ ان جگہوں میں اگر میں بیوی کو اپنے ساتھ لے جاؤں تو کیا اس کی اجازت ہے؟نیز گھر سے باہر رات کا کھانا کھانے اور کچھ تفریح کی غرض سے پارکوں میں بیوی کو ساتھ لے جانے کی اجازت ہے؟

    سوال: میری بیوی میرے بھائیوں سے مکمل پردہ کرتی ہے، ہم مشترکہ گھر میں رہتے ہیں۔ میں نے ایک مضمون پڑھا کہ مسلم عورتوں کو باہرجانے اور ، شادیوں میں شرکت کرنے اورمول(شاپنگ سینٹر) اور مارکیٹ میں جانے کا مشورہ دینا اچھا نہیں ہے۔ میں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ ان جگہوں میں اگر میں بیوی کو اپنے ساتھ لے جاؤں تو کیا اس کی اجازت ہے؟نیز گھر سے باہر رات کا کھانا کھانے اور کچھ تفریح کی غرض سے پارکوں میں بیوی کو ساتھ لے جانے کی اجازت ہے؟

    جواب نمبر: 35969

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 120=76-1/1433 جو مضمون آپ نے پڑھا، بالکل صحیح پڑھا، فی نفسہ عورت کا گھر سے نکلنا، گلیوں اور بازاروں میں گھومنا شرعاً ممنوع ہے اور فتنہ وفساد سے خالی نہیں؛ اس لیے بلاضرورت شدیدہ عورت کا گھر سے نکلنا درست نہیں ہے، عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں (جب کہ فتنہ وفساد کا اندیشہ آج کے مقابلے نا کے برابر تھا) عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکا گیا، جب کہ ایک مسلمان کے لیے مسجد نبوی میں آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے بڑھ کر اور کونسی نعمت ہوسکتی ہے، ان سب کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”کہ عورت کا اپنے گھر کے گوشہ میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے“ تو بھلا کیونکر آج کے اس پرفتن اور پر خطر دور میں دین اسلام عورتوں کو غیر محارم کے یہاں شادیوں میں، تقاریب میں جانے، ریسٹورینٹ ارو پارکوں میں تفریح کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ ویمنعہا من زیارة الأجانب وعیادتہم والولیمة، وإن أذن کانا عاصیین (شامي: ۳/۶۰۳) البتہ بحالت مجبوری اور بوجہ ضرورت عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے، قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ”قَدْ أَذِنَ اللَّہُ لَکُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِکُنَّ“ صحیح البخاری، باب خروج النساء لحوائجہن۔ ترجمہ: اللہ نے تم کو اپنی ضروریات کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ” وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ“ کا منشا یہ نہیں ہے کہ عورتیں گھر کی حدود سے قدم باہر نکالیں ہی نہیں، حاجات وضروریات کے لیے ان کو نکلنے کی اجازت ہے، مگر یہ اجازت نہ غیرمشروط ہے نہ غیرمحدود، عورتیں اس کی مجاز نہیں ہیں کہ جہاں چاہیں گھومیں پھریں اور مردانہ اجتماعات میں گھل مل جائیں، حاجات وضروریات سے شریعت کی مراد ایسی واقعی حاجات وضروریات ہیں جن میں درحقیقت نکلنا اور باہر کام کرنا عورت کے لیے ناگزیر ہو اور شاپنگ کرنا، ریسٹورینٹ میں کھانا کھانا اور تفریح گاہوں میں گھومنا یہ کوئی حاجت نہیں؛ اس لیے آپ کا بیوی کو ساتھ نہ لے جانا ہی بہتر ہے؛ البتہ اگر جانے میں خیر کا پہلو غالب ہو تو پردے اور شرعی حدود کا خیال کرتے ہوئے آپ اپنی اہلیہ کو اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند