• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 19983

    عنوان:

    اگر کوئی خاتون چہرے کا پردہ (نقاب) نہیں کرتی ہے صرف برقعہ پہنتی ہے تو اس پر بھی بے پردہ مستورات کے متعلق جو وعیدیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں کیا اس خاتون پر بھی وارد ہوں گی؟ ہم اس عورت کو بے پردہ والی عورت کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ یہ چہرے کا پردہ نص قطعی سے ثابت ہے یا صرف علماء نے فتنہ کے سد باب کے لیے ثابت فرمایا ہے؟ تفصیلی جواب مع حوالہ جات سے نوازیں عین نوازش ہوگی۔

    سوال:

    اگر کوئی خاتون چہرے کا پردہ (نقاب) نہیں کرتی ہے صرف برقعہ پہنتی ہے تو اس پر بھی بے پردہ مستورات کے متعلق جو وعیدیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں کیا اس خاتون پر بھی وارد ہوں گی؟ ہم اس عورت کو بے پردہ والی عورت کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ یہ چہرے کا پردہ نص قطعی سے ثابت ہے یا صرف علماء نے فتنہ کے سد باب کے لیے ثابت فرمایا ہے؟ تفصیلی جواب مع حوالہ جات سے نوازیں عین نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 19983

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 335=275-3/1431

     

    شرعی پردہ جس کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے اس کے تین درجے ہیں، اعلیٰ متوسط اور ادنیٰ، اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ خواتین اپنے آپ کو گھر میں اس طرح چھپائیں کہ ان کے جسم کا ظاہری باطنی حصہ کسی اجنبی کو نظر نہ آئے: ?وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ? (احزاب: ۳۳) یہ حکم ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع موٴمنات ومسلمات کے لیے ہے۔ ?وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ? (احزاب: ۵۳) ?وعن ابن مسعود أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: المرأة عورة فإذا خرجت استشرفہا الشیطان أخرجہ الترمذي? لیکن عورت کو کبھی طبعی حوائج یا دیگر شرعی ضروریات کے لیے باہر نکلنا ناگزیر ہوجاتا ہے، اس وقت اس کو حکم دیا گیا کہ باہر نکلتے وقت اپنے اوپر ایسی چادر ڈالیں جس سے ان کے بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہو یہ دوسرا درجہ ہے اور اس پر قرآن کی آیت: ?یَآ اَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَآءِ الْمُوٴْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِہِنَّ? (احزاب: ۵۹) دال ہے۔ اس آیت کا مقتضی یہ ہے کہ عورت اپنا سارا بدن حتی کہ چہرہ بھی چھپائے اس آیت سے معلوم ہوا کہ چہرہ کا پردہ کرنا نص قطعی سے ثابت ہے۔ عربی میں جلباب اس چاردر کو کہا جاتا ہے جو پورے جسم کو چھپالے، چناں چہ ابن سیرین نے عبیدہ سلمانی سے اس آیت کے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے اپنی چادر اٹھاکر اپنے کو اس میں لپیٹ لیا اور پورا سر پلکوں تک چھپالیا اور اپنا چہرہ بھی ڈھانپ لیا البتہ صرف اپنی بائیں آنکھ بائیں کنارے سے نکال لی۔ (روح المعانی) بہ ہرحال یہ آیت اس امر پر دلالت کررہی ہے کہ عورت جب باہر نکلے تو ایک چادر اپنے اوپر ڈال کر اپنے سارے جسم کا پردہ کرے حتی کہ اپنے چہرہ کا بھی۔

    تیسرا درجہ یہ ہے کہ: عورت گھر سے نکلے تو بوقت ضرورت اپنے ہتھیلیوں اور چہرہ کو کھول دے بہ شرطیکہ فتنہ سے مامون ہو: ?وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا? (نور: ۳۱) ماظہر کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے، صحابہٴ کرام میں سے حضرت ابن عباس، ابن عمر، عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک اس سے مراد ?وجہ اور کفین? ہے۔ حضرت عطاء، عکرمہ، ابراہین نحخعی اور ضحاک رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ البتہ ابن مسعود رضی اللہ اس آیت سے جلباب اور رِدا مراد لیتے ہیں، مگر قول اول پر بہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں۔ ابوداوٴد اور ترمذی میں اس قسم کی احادیث موجود ہیں، اب بہ وقت ضرورت اس کو کھولنے کی اجازت ہے، مگر اس کو دیکھنے کے سلسلے میں مذاہب اربعہ اس بات پر متفق ہیں کہ لذت حاصل کرنے کی نیت سے یا بہ وقتِ اندیشہٴ فتنہ چہرہ کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ حنابلہ شافعیہ کے مذاہب میں راجح بات یہ ہے کہ امن کے وقت بھی چہرہ کا دیکھنا حرام ہے۔ البتہ فتنہ سے امن اور لذت کا قصد نہ ہونے کی صورت میں مالکیہ اور حنفیہ نے دیکھنے کی اجازت دی ہے، مگر اس زمانہ میں اس کا پایا جانا بہت مشکل ہے اور اکثر احوال میں یہ شرط پائی نہیں جاتی اس لیے متأثرین حنفیہ نے مطلقاً عورت کے چہرہ کی طرف دیکھنے سے منع فرمایا: ?فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا فحِل النظر مقید بعد الشہوة وإلا فحرام، وھذا في زمانہم أما في زماننا فمَنَع من الشابة (در مختار مع الشامي:۹/۵۳۲، کتاب الحظر والإباحة، باب النظر والمس، ط: زکریا دیوبند) اس سے یہ واضح ہوگیا کہ: فی زماننا جو عورت بلاضرورت اپنا چہرہ کھولے گی اس پر بے پردہ عورت کے سلسلے میں جو وعیدیں آئی ہیں، اس پر صادق ہوں گی، چہرہ کا پردہ بھی نص قطعی سے ثابت ہے، مگر بہ وقت ضرورت اس کو کھولنے کی اجازت ہوگی، جیسا کہ آیت قرآنیہ میں موجود ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند