• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 17646

    عنوان:

    خلع کا کیا ضابطہ اور ترتیب ہے؟ ایک لڑکی نے اپنے شوہر سے خلع لیا۔ لڑکا (شوہر) نے دوبالغ گواہوں کے سامنے ایک خلع نامہ پر(جو کہ ایک سادے کاغذ پر لکھا ہواتھا) دستخط کئے جس میں وہ لڑکی کو خلع دینے پر راضی تھا، تین گواہوں اور لڑکی نے بھی ان کاغذات پر دستخط کئے۔ کیااس خلع نامہ پر اس قاضی کی بھی دستخط کرانے کی ضرورت ہے جس نے نکاح پڑھایا تھا، یا یہ خلع نامہ شادی کو فسخ کرنے کے لیے کافی ہے؟

    سوال:

    خلع کا کیا ضابطہ اور ترتیب ہے؟ ایک لڑکی نے اپنے شوہر سے خلع لیا۔ لڑکا (شوہر) نے دوبالغ گواہوں کے سامنے ایک خلع نامہ پر(جو کہ ایک سادے کاغذ پر لکھا ہواتھا) دستخط کئے جس میں وہ لڑکی کو خلع دینے پر راضی تھا، تین گواہوں اور لڑکی نے بھی ان کاغذات پر دستخط کئے۔ کیااس خلع نامہ پر اس قاضی کی بھی دستخط کرانے کی ضرورت ہے جس نے نکاح پڑھایا تھا، یا یہ خلع نامہ شادی کو فسخ کرنے کے لیے کافی ہے؟

    جواب نمبر: 17646

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(م):1742=1742-11/1430

     

    بوقت ضرورت جس طرح مرد کو طلاق دینا جائز ہے، اسی طرح اگر عورت، مرد کے ساتھ نباہ نہ کرسکتی ہو تو اس کو اجازت ہے کہ اپنے مہر وغیرہ کے بدلے شوہر سے گلوخلاصی حاصل کرلے، لیکن خلع میں طرفین کی رضامندی شرط ہے، خلع کا مطالبہ عموماً عورت کی جانب سے ہوتا ہے، اور اگر مرد کی جانب سے اس کی پیش کش ہو تو عورت کے قبول کرنے پر موقوف رہتی ہے۔ عورت قبول کرلے تو خلع ہوگا ورنہ نہیں، خلع میں شوہر کا لفظ [طلاق] استعمال کرنا ضروری نہیں، اگر عورت کہے کہ [میں خلع (علاحدگی) چاہتی ہوں] اس کے جواب میں مرد کہے [میں نے خلع دیدیا] تو بس خلع ہوگیا، خلع میں طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے، رجوع کا حق نہیں رہتا، البتہ دونوں کی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ خلع نامہ پر قاضی یا نکاح خواں کا دستخط کرنا لازمی نہیں، شوہر بیوی کی رضامندی کافی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند